یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

ایک علمی اور فقہی جائزہ

 

مقالہ نگار: پروفیسر حافظ احمد یارؒ

 

مقدمہ

        ۱۹۵۱ء کے موسم گرما کا ذکر ہے۔ تحصیل دار علاقہ کا ہمارے گاؤں میں کیمپ تھا۔مجھے بھی چند کھیتوں کی حدبرآری کے سلسلے میں ان کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا۔ نواحی دیہات سے ’’انتقالاتِ اراضی‘‘ کے متعلق بہت سے لوگ بلائے گئے تھے۔ ازاں جملہ دو ایسے آدمی بھی تھے جو اپنی زندگی ہی میں اپنے یتیم پوتوں کے نام حصہ ٔزمین منتقل کرانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان انتقالات کی تصدیق وغیرہ کے بعد برسبیل تذکرہ تحصیل دار صاحب نے فرمایا:’’دیکھئے تو یہ کیسے مسلمان ہیں جو احکامِ الٰہی کی اطاعت سے منحرف ہونے کے لیے حیلے ڈھونڈتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جن پوتوں کو محروم الارث رکھا ہے یہ ان کے نام جائیدادیں منتقل کرکے نافرمانی کو نیکی سمجھ رہے ہیں‘‘-------یتیم سے فطری ہمدردی‘ اسلام کے دین حق اور دین فطرت ہونے پر ایمان اور تحصیل دار صاحب کا یہ تعجب خیز تبصرہ  ---- ---یہ تھے وہ متصادم محرکات جنہوں نے مجھے اسی دن سے اس مسئلہ کی پوری پوری تحقیقات کے لیے بے چین کیے رکھا‘ تاآنکہ میں نے اسے اپنے مقالہ کا موضوع بنایا۔

        اکتوبر۱۹۵۲ء میں ایم اے میں داخلہ لینے کے بعد ہی میں نے اپنے محترم صدر شعبہ علامہ علاؤ الدین صاحب صدیقی مدظلہ کے سامنے اپنی اس طلب تحقیق کا اظہار کیا تو انہوں نے نہ صرف میرے اس ارادہ و جذبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اپنے عالمانہ مشوروں‘ مفید ہدایات اور مسلسل ہمدردانہ رہنمائی سے میری محنت میں ایک ذوق پیدا کر دیا۔ حتٰی  کہ یہ مقالہ انہی کی ہدایت و نگرانی میں اتمام کو پہنچا۔

        خصوصاً اس ضمن میں ان کے ذریعے سے مجھے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامی کی مختصر مگر بے نظیر لائبریری سے جو گراں بہا مدد ملی ہے اس کا ذکر نہ کرنا ادائے فرض میں کوتاہی کے مترادف ہوگا۔ عام مروجہ مستند کتابوں کے علاوہ دینی و اسلامی علوم پر جدید ترین عربی‘ فارسی‘ انگریزی اور اردو لٹریچر ‘ اس لائبریری کی ایسی خصوصیت ہے جو اپنی نظیر آپ ہی ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ مجموعہ ان علوم کے ایک جدید (modern)متعلّم کے لیے یقینا ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔

        دسمبر۱۹۵۳ء میں جب کہ میں اس مقالہ کی ترتیب و تہذیب میں مصروف تھا‘ پنجاب اسمبلی میں یہی مسئلہ زیربحث آکر وقت کا خاصا سنسنی خیزمسئلہ بن گیا۔ اس بنا پر مقالہ کو مکمل ترین (up-to-date)صورت دینے کے لیے مجھے بعض جگہ مناسب اضافے بھی کرنے پڑے ‘لیکن اس ضمن میں اخبارات اور مجالس میں بحث و مباحثہ کا جو سلسلہ چلا اس نے اس افسوسناک حقیقت کا انکشاف کیا کہ عوام تو درکنار ہمارے اہل علم حضرات بھی اسلامی قانونِ وراثت سے عموماً بے خبر ہی ہیں۔ اور اس پر حضرت صادق ومصدوق ﷺکی وہ حدیث بے اختیار یاد آتی ہے کہ ((تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَاِنَّہٗ مِنْ دِیْنِکُمْ وَاِنَّہٗ نِصْفُ الْعِلْمِ وَاِنَّہٗ اَوَّلُ عِلْمٍ یُنْزَعُ مِنْ اُمَّتِیْ((

        بہر حال آئندہ صفحات میں ’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ ‘‘کو محض جذباتی اور مناظرانہ نقطہ نظر سے نہیں بلکہ علمی اور فقہی طریق پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور پڑھنے والوں سے بھی یہی جذبہ اور یہی نقطہ نظر متوقع ہے۔

واللّٰہ وَلِیُّ التوفیق وھو یھدی الی سبیل الرشاد

                                                                حافظ احمد یار ‘متعلّم ایم ۔اے

تمہید

        ملکیت‘ جائیداد اور وراثت کے مسائل تمدنِ انسانی کے لوازمات میں سے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تمدن و حضارت کے مختلف درجات اور الگ الگ اثرات نے ان مسائل کے متعلق بھی متعدد نظریات اور تصورات پیدا کر دیے ہیں۔ (۱(

        اسلام میں  -----جو انسان کے روحانی و مادی ارتقاء و کمال کے لیے خود انسان کے خالق و مالک کا تجویز کردہ دستور العمل ہے   ----- دوسرے تمدنی و معاشرتی مسائل کی طرح قانونِ وراثت کو بھی اس خوبی‘ جامعیت اور اختصار کے ساتھ مرتب کرکے پیش کیا گیا ہے کہ جہاں ایک طرف وہ دورانِ دولت کے بہترین اصولوں پر مبنی ہونے کے باعث ایک نہایت معتدل و متوازن اقتصادی نظام قائم کرتا ہے‘ وہاں وہ قریب قریب ہر قسم کے رشتہ داروں کے دعاوی ٔوراثت کو اپنے اپنے موقع و محل پر زیر نظر رکھ کر ایک ایسا معاشرہ تیار کرنا چاہتا ہے جس کے افراد باہمی خیر خواہی اور نفع رسانی کی بنا پر ایک مضبوط رشتے میں مربوط ہوجائیں۔

        یہی وجہ ہے کہ علم الفرائض (اسلامی قانونِ وراثت)اسلام میں ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ خود قرآن حکیم نے فرائض کے جاری نہ کرنے پر سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں آیاتِ میراث کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

}وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَــہٗ وَیَتَـعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَاص وَلَـہٗ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ{

’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی قائم کردہ حدوں سے تجاوز کرے گا تو اللہ اسے آگ میں ڈالے گا‘جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہوگی۔‘‘

        چونکہ احکامِ وراثت کا تعلق براہِ راست روز مرہ کی عملی زندگی کے نہایت اہم پہلو سے ہے‘ اس لیے نبی اکرم نے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو اس علم کی طرف خصوصاً توجہ دلائی اور اسے دین کا نہایت ضروری جزء قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا:

(۱)      تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَاِنَّہٗ مِنْ دِیْنِکُمْ وَاِنَّہٗ نِصْفُ الْعِلْمِ وَاِنَّہٗ اَوَّلُ عِلْمٍ یُنْزَعُ مِنْ اُمَّتِیْ(۲)

’’قانون وراثت کو سیکھو‘کیونکہ یہ تمہارے دین (کی اہم ضروریات ) میں سے ہے اور یہ آدھا علم (دین)ہے اور یہی علم سب سے پہلے میری اُمت سے اٹھا لیا جائے گا۔‘‘

(۲)     تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوْھَا النَّاسَ، فَاِنِّی امْرُؤٌ مَقْبُوْضٌ وَاِنَّ الْعِلْمَ سَیُقْبَضُ وَتَظْھَرُ الْفِتَنُ حَتّٰی یَخْتَلِفُ اثْنَانِ فِی الْفَرِیْضَۃِ فَلَا یَجِدَانِ مَنْ یَقْضِیْ فِیْھَا (۳)

’’علم وراثت کو سیکھو اور لوگوں کو سکھلائو ‘کیونکہ میں (آخر) مرنے والا ہوں۔ اور (پھر ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ) علم اٹھالیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے۔ (اور حالت یہاںتک پہنچے گی) کہ دو آدمی وراثت کے متعلق جھگڑا کریں گے اور انہیں اس میں (صحیح شرعی طریقہ پر) فیصلہ دینے والا نہیں ملے گا۔‘‘

اور بھی اسی طرح کی احادیث ہیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓکے متعلق مشہور ہے کہ آپؓ اکثر فرمایا کرتے تھے :

اِذَا تَحَدَّثْتُمْ فَتَحَدِّثُوْا فِی الْفَرَائِضِ وَاِذَا لَھَوْتُمْ فَالْھَوْا فِی الرَّمْیِ (۴)

’’جب باتیں کرو تو علم میراث کے متعلق کیا کرو اور کھیلنا ہو تو تیراندازی کی مشق کیا کرو۔‘‘

        صحابہ کرام ؓمیں سے مندرجہ ذیل بزرگ خاص طور پر اس علم کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور مسائل میراث کے متعلق اکثر روایات و احکام کا منبع و ماخذ یہی ہیں۔  (۵)

        (۱)      امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ            (۲)     حضرت عبداللہ بن عباسؓ

        (۳)    حضرت عبداللہ بن مسعودؓ                     (۴)     حضرت زید بن ثابتؓ

        (۵)     اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ

        اگرچہ عہد صحابہؓ  میں بھی متعدد نئے اور مشکل مسائل نمودار ہوئے (مثلاً الجدمع الاخوۃ اور ’’عول‘‘ کے مسئلے)لیکن اسلامی سلطنت کی وسعت اور ہر مذہب و ملت سے آنے والے نو مسلموں کی کثرت نے بے شمار نئے نئے جزئی اشکالات اور پیچیدہ صورتیں پیدا کر دیں۔ مثلاً ایران کے مجوسی محرماتِ ابدیہ سے شادی کر لیتے تھے۔ فرض کیجئے‘ ایک مجوسی فیروز نے اپنی بیٹی زرینہ سے شادی کرلی اور اس سے ایک لڑکی گلنار پیدا ہوئی۔ اب اگر یہ کنبہ مسلمان ہوجائے تو یہ لڑکی گلنار زرینہ کے مرنے پر اس کے ترکہ سے بطور دختر حصہ لے یا بطور بہن کے؟ اور اسی طرح زرینہ گلزار کی ماں بھی ہے اور بہن بھی۔ وغیر ذلک۔

        چنانچہ زمانے کی ضروریات نے دیگر علوم شرعیہ کی طرح اس علم کی تدوین پر بھی فقہاء کو متوجہ کیا۔ انہوں نے اسے فن کی حیثیت دی۔ اس کے لیے خاص زبان اور اصطلاحات وضع کیں اور اس کے ایک ایک شعبہ پر قرآن و سنت کی روشنی میں غوروفکر کرکے تفصیلی و جزئی قواعد مستخرج کیے۔ پھر اس علم کے مباحث محض فکری و نظری مباحث نہیں تھے ‘بلکہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے نافذ العمل قانونِ وراثت کی حیثیت سے قدم قدم پر ان قواعد کے حسن و قبح کو عملاً جانچا جاسکتا تھا۔

        اس طرح یہ فن اپنے زمانے کے بہترین قانون دان دماغوں نے پروان چڑھایا اور یہ انہی بزرگوں کی دیانت دارانہ مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس اسلامی قانونِ وراثت کی پوری تفصیلات اور اس کے عہد بعہد پیدا ہونے والے اختلافات اور متنازعہ فیہ قانونی تشریحات و تعبیرات کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ نیز قانونِ وراثت کی تمام جزئیات تک کو اس تفصیل کے ساتھ منضبط کیا ہے کہ مسائل کے کسی گوشہ کو تشنہ تکمیل نہیں رہنے دیا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ان سے اجتہادی غلطیاں سرزد ہوئی ہوں ‘لیکن ان کی فنی خدمات کا بدترین دشمنوں تک کو اعتراف ہے۔ چنانچہ ’’سراجیہ‘‘ کا مشہور مترجم  Sir William Jonesلکھتا ہے:

"I am strongly disposed to believe that no possible question could occur on the Mohammaden Law of Succession which might not be rapidly and correctly answered." (6)

اور علامہ اقبال ؒنے اپنے خطبات میں Von Kremerکا یہ قول نقل کیا ہے:

"Next to the Romans, there is no other nation, besides the Arabs, which could call its own a system of law so carefully worked out … and law of inheritance being a supermely original branch of it."(7)

        اسلامی احکام و قوانین کی تشریح و تعبیرکے سلسلے میں جو مختلف مذاہب فکر پیدا ہوئے ‘انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

        (۱)      اہل السنۃ والجماعۃ (حنفی‘ مالکی‘ شافعی‘ حنبلی‘ ظاہری وغیرہ)

        (۲)     شیعہ (اثنا عشریہ‘ اسماعیلیہ‘ زیدیہ وغیرہ)۔

ان میں سے جزوی اختلاف کے باوجود احناف کو اہل سنت کا اور اثنا عشریہ کو شیعہ کا نمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ آگے چل کر جہاں جہاں ہم مسئلہ زیر بحث کے متعلق مختلف اسلامی فرقوں کانقطہ نظر پیش کر یں گے تو وہاں انہی دو گروہوں کو لیں گے۔

        اب ہم اس مسئلہ پراپنی بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے حصے میں اس کا قدیم پہلو بلا تنقید یعنی اس بارے میں فقہاء کا مسلک و موقف پیش کریں گے ‘اور اس مقصد کے لیے ‘نیز مسئلہ کی حقیقت ذہن نشین کرنے کے لیے قرآن وحدیث اور فقہ کے ضروری احکامِ وراثت کو ذرا بالتفصیل بیان کریں گے ---- اور دوسرے حصے میں مسئلہ کا جدید پہلو یعنی قدیم مسلک پر اعتراضات ‘ان پر تنقید اور مسئلہ کا حل ازروئے قرآن و سنت پیش کریں گے۔  واللّٰہ ولی التوفیق والھدایۃ فی کل حال و عمل

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      اس موضوع پر اضافہ معلومات کے لیےEncyclopedia of Religion and Ethicsکی جلد ہفتم میں مضمون بعنوان ’’Inheritance‘‘  کا مطالعہ بے حد مفید اور دلچسپ بھی ہوگا۔

(۲۳) المواریث الاسلامیہ‘ ص۸پر یہ احادیث احمد‘ ترمذی‘ حاکم اور ابن ماجہ کے حوالے سے درج ہیں اور بعینہٖ اسی حوالے سے مولانا اصغر حسین صاحب دیوبندی نے اپنے ’’رسالہ وراثت‘‘ کے شروع میں درج کی ہیں۔ مجھے ترمذی دیکھنے کا اتفاق ہوا اس میں الفاظ کا تفاوت ہے۔ البتہ  الجامع الصغیر سیوطی ۳/۲۵۴اور تفسیر ابن کثیر‘ ۱/۴۵۷پر بھی یہ احادیث اسی طرح موجود ہیں۔ (۲۔کنزالعمال‘ج۵‘ ح۴۲۲۶) (۳۔کنزالعمال‘ ج۱‘ ح۲۳۷۰)۔

(۴)     المواریث الاسلامیہ‘ص۹۔ (کنزالعمال‘ج۶‘ح۱۰۷)۔

(۵)     المواریث الا سلامیہ ‘ص۹۔نیز سیرتِ عائشہ ؓ(سید سلیمان ندوی)‘ ص۱۹۹۔

(6) Mohammaden Law by F.B.Tyabji, p. 825.

(7)  Reconstruction of Religion Thought in Islam, p. 168&170.

 

پہلا حصہ

مسئلہ کا قدیم پہلو

باب اول

قرآن کے احکامِ وراثت

 

        قرآن حکیم کے دوسرے بہت سے احکام کی طرح احکامِ میراث بھی ایک مناسب تدریج اور آہستگی کے ساتھ نازل کیے گئے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی تمام قوانین وراثت کو سورۃ النساء کی چار پانچ آیات میں اس خوبی‘ اختصار و ایجاز اور جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ عقل انسانی اس اعجاز پر محو ِحیرت ہوجاتی ہے۔ ذیل میں ان آیات کو آسانی فہم اور تسہیل حوالہ کے لیے ایک خاص تقسیم اور عنوان بندی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

)ا) اصولِ وراثت

}لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ  ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا } {النساء:۷{

’’ماں باپ اور قریبی رشتہ دارو ں کے ترکہ میں ‘تھوڑا ہو یا بہت‘  مردوں کا حصہ ہے اور (ایسا ہی)ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں عورتوں کا بھی حصہ ہے (اور یہ)حصہ (ہمارا اپنا)ٹھہرایا ہوا (ہے)۔‘‘

)ب)اولاد کے متعلق احکام

يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ  ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ  } (النساء:۱۱(

’’)مسلمانو!)تمہاری اولاد (کے حصوں )کے بارے میں اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتاہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ (دیا کرو)‘پھر اگر لڑکیاں (ہی ہوں اور وہ دو یا)دو سے زیادہ ہوں تو ترکے میں ان کا حصہ دوتہائی اور اگر (صرف)ایک لڑکی ہی ہو تو اسے(ترکہ کا)آدھا (حصہ ملے گا)۔‘‘

)ج)والدین کے متعلق

} وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ  ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ }(النساء:۱۱)

’’اور میت کے ماں باپ کو (یعنی)دونوں میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ (ملے گا)اس صورت میں کہ میت کی اولاد ہو‘ اور اگر اس کی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث (صرف)ماں باپ ہی (بن رہے)ہوں تو اس کی ماں کاحصہ ایک تہائی ہوگا (اور باقی باپ کا)‘پھر اگر (اس صورت میں ماں باپ کے ساتھ) میت کے کچھ بھائی بہن بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا (اور باقی باپ کا)‘لیکن یہ (وراثتیں)وصیت اور قرض کے پورا کرنے کے بعد (تقسیم کرنے کا حکم ہوگا)۔‘‘

(د)زن و شوہر کے متعلق

}وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ  ۚ فَاِنْ كَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭوَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۭ {(آیت۱۲(

’’اور جو ترکہ تمہاری بیویاں چھوڑ مریں‘ اگر ان کے اولاد نہیں ہے تو اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے‘ اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں تمہارا چوتھائی حصہ (ہوگا)اور یہ (تقسیم بھی)وصیت و قرض کے پورا کرنے کے بعد (ہوگی)۔اور جو کچھ (ترکہ)تم چھوڑ مرو اور تمہاری کوئی اولاد نہ ہو تو تمہاری بیویوں کا حصہ ایک چوتھائی‘ اور اگر تمہارے اولاد ہو تو تمہارے ترکہ میں سے تمہاری بیویوں کو آٹھواں حصہ (ملے گا)اور یہ (تقسیم بھی)وصیت اور قرض کے پورا کرنے کے بعد (ہوگی)۔‘‘

)ھ)حقیقی یا علاتی بہن بھائیوں کے متعلق
 }اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَيْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَهٗٓ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَآ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ ۭفَاِنْ كَانَتَا اثْنَـتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ  ۭوَاِنْ كَانُوْٓا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّنِسَاۗءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـيَيْنِ ۭ  } (النساء:۱۷۶(

’’اگر کوئی ایسا آدمی مر جائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ ہی باپ دادا ہو‘ اور ایسے آدمی کو کلالہ کہتے ہیں)اور اس کی صرف ایک ہی بہن ہو تو اس (بہن)کو ترکے کا نصف (دیا جائے گا)‘اور بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس کے مال کا وارث یہ بھائی ہوگا۔ پھر اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کو اس کے ترکہ میں سے دو تہائی (ملے گا)‘اور اگر بھائی بہن ملے جلے ہوں تو مرد کو عورت سے دوگنا (کے اصول پر تقسیم ہوگی)۔‘‘

)و)اخیافی بہن بھائیوں کے متعلق

}وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنْ كَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَھُمْ شُرَكَاۗءُ فِي الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِھَآ اَوْ دَيْنٍ ۙغَيْرَ مُضَاۗرٍّ ۚ  }(النساء:۱۲(

’’اور اگر وہ مرد کہ جس کی میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا یا (کوئی)عورت ہو ایسی ہی اور اس میت کے ایک بھائی ہے یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے۔ پھر اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو سب حصہ دار ہوں گے ایک تہائی میں‘بعد اس وصیت کے جو ہوچکی ہے یا قرض کے ‘ جب اوروں کا نقصان نہ کیا ہو۔‘‘

        مختلف وارثوں کے حصوں کے تعین کے علاوہ ان آیات سے بالا جمال وراثت کے حسب ذیل اصول اور قواعد حاصل ہوتے ہیں ۔(۱(

)۱(      وراثت کے حق دار صرف مرد ہی نہیں ‘عورتیں بھی ہوں گی۔

)۲(     سبب میراث دو ہوں گے :

        )ا)      اولاد ہونا یعنی میت اپنے وارث کا باپ یا ماں ہو  (الوالدان(

        )ب)    اقرب ہونا یعنی میت اپنے وارث کا زیادہ قریبی رشتہ دار ہو (الاقربون(

)۳ (وراثت کا قانون ہر قسم کے املاکِ متروکہ پر جاری ہوگا۔(مِمَّا تَرَکَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ(

)۴(     جب قرابت مساوی درجے کی ہوگی تو مرد کا حصہ عورت سے دگنا ہوگا۔ مثلاً بیٹا ‘بیٹی‘ خاوند‘ بیوی‘ بھائی بہن۔ دیکھئے آیات مندرجہ تحت جزء  (ب)و (د)و(ھـ

)۵(     بعض وارثوں کو ہر حالت میں ترکہ کا صرف ایک ’’متعین حصہ‘‘ ملتا ہے۔ مثلاً ماں‘ خاوند یا بیوی  --- اور بعض وارثوں کو کبھی تو ترکہ کا ایک مقررہ حصہ دیا جاتا ہے اور کبھی وہ ’’بقایا‘‘ کے مالک بن جاتے ہیں یا ’’بقایا‘‘میں دوسروں کے ساتھ شریک ہوکر (مرد کو عورت سے دوگنا کے اصول پر)حصہ پاتے ہیں‘ مثلاً باپ بیٹی بیٹا‘ دیکھئے آیات مندرجہ تحت جزء (ب)و (ج)و (د)و (ھ)(پہلی قسم یعنی متعین حصہ پانے والوں کو فقہ فرائض کی اصطلاح میں ’’ذوی الفروض‘‘ کہتے ہیں اور دوسری قسم ’’بقایا‘‘ ۔یا بقایا میں دوسروں کے ساتھ شامل ہو کر حصہ پانے والوں کو اصطلاح میں ’’عصبات‘‘ کہتے ہیں۔(

)۶(     بعض دفعہ ایک وارث کی موجودگی کا دوسرے وارث کے حصہ پر اثر پڑتا ہے‘ دیکھئے آیات مندرجہ جزء (ج)و (د)   ---اسے اصطلاح میں ’’حجاب ‘‘کہتے ہیں اور ہمارے زیر بحث مسئلہ کا محور یہی اصول ہے۔

)۷(    باپ کی موجودگی میں اس کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا ‘دیکھئے جزء (ج)(۲(

)۸ (ماں باپ‘ خاوند اور بیوی کو ہر حال میں جائیداد سے حصہ ملے گا‘ چاہے میت کی اولاد ہو یا نہ ہو: {وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحَدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ … وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ… وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ{

)۹(     ہر قسم کی وراثتیں وصیت اور قرض کے پورا کرنے کے بعد تقسیم کرنے کا حکم جاری ہوگا۔

)۱۰( کل متعین حصے چھ طرح کے ہوسکتے ہیں:  ۸/۱  ‘ ۴/۱‘۲/۱‘۶/۱‘۳/۱‘۳/۲ (۳(

        بالاتفاق یہی وہ اصول ہیں (اور یہ بالکل ظاہر آیات سے سمجھے جاسکتے ہیں)جن پر ہر مذہب فکر نے فقہ فرائض کی عمارت کھڑی کی ہے۔ اگرچہ ان قواعد کو بنیادی طور پر مان لینے کے باوجود ان کے اطلاق اور تعبیرو توضیح میں اختلاف کی بنا پر مسائل میں بھی اختلاف ضرورپیدا ہوگیا ہے۔

        ان میں سے خصوصاً نمبر۲یعنی’’ سبب وراثت‘‘ اور نمبر۶یعنی ’’قاعدہ حجاب ‘‘مسئلہ زیر بحث سے خاص طور پر متعلق ہیں ‘اس لیے سب سے پہلے ان کو ذرا تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہے۔

حواشی اور حوالہ جات

)۱(      مبنی بر مطالعہ مختلف تفاسیر قرآن خصوصاً احکام القرآن ابن العربیؒ ۱/۱۳۶ببعد‘و فتح القدیر للشوکانیؒ۱/۳۹۳ ببعد واحکام القرآن للجصاص۲/۷۰ وتفسیر بیان القرآن مولانا تھانویؒ ۲/۹۴ببعد و تفسیر المراغی۴/۱۹۹۱۔

)۲(بلکہ شیعہ کے نزدیک صرف ماں بھی اپنی اولاد کے لیے حاجب ہوجاتی ہے۔ دیکھئے تفسیر ابوالفتوح رازی۳/۱۲۴ تحت تفسیر {فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ{

)۳(    ان حصص کی حکمت و فلسفہ پر بحث کے لیے دیکھئے:حجۃ اللّٰہ البالغہ‘ اردو ترجمہ‘ ج۲‘ ص۵۱۶ تا ۵۱۹۔

 

باب دوم

اسبابِ میراث

        } مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ}کہہ کر قرآن حکیم نے وراثت کے سب سے بڑے فطری سبب کو بیان کر دیا ہے۔ یعنی مال چھوڑ کر مرنے والا جس کا باپ یا ماں ہے وہ سب سے پہلے وراثت کا حقدار ہے(۱)چاہے وہ مرد (بیٹا)ہو یا عورت (بیٹی)۔اس کے بعد  {وَالْاَقْرَبُوْنَ} کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ اگر مرنے والا بے اولاد ہو تو آخر کسی کا قریبی تو ہوگا ‘پس اس کے پسماندگان میں سے جس کے ساتھ اس (میت)کا زیادہ قریبی رشتہ ہو وہی وارث ہوگا۔گویا قرابت کے متعدد دعویداروں میں سے ترجیح کسے دی جائے؟ اس کی بھی نشان دہی فرما دی ہے‘ اور اس الْاَقْرَبُوْنَ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وراثت صرف ’’والدین‘‘ کی طرف سے ہی نہیں ملے گی ‘بلکہ بعض دوسرے قریب ترین رشتہ داروں سے بھی ملے گی۔ مثلاً اولاد اور زوجین سے بھی ‘جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

٭      اولاد کا حق مقدم تھا اوربظاہر ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملنا چاہیے ---- لیکن قرآن حکیم نے حکم دیا کہ ماں‘ باپ‘ خاوند اور بیوی کو بہرحال اولاد کے ساتھ بھی حصہ دیا جائے گا اور اسی لیے یہ چھ یعنی ماں باپ‘ بیٹا‘ بیٹی‘ خاوند اور بیوی ’’اصلی وارث‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ سب وراثت لیتے ہیں اور ان سب کی طرف سے وراثت ملتی بھی ہے۔

٭      اب مزید غور کیجئے۔ اولاد کی موجودگی میں ماں باپ ‘ خاوند اور بیوی سب کا حصہ کم ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بنوۃ (اولاد ہونا)سبب میراث کی سب سے قوی جہت ہے۔

٭      پھر دیکھئے۔ اولاد کے بالکل ہی نہ ہونے کی صورت میں ’’بقایا‘‘تمام حصے کا مالک باپ کو ٹھہرایا گیا ہے۔ دیکھئے آیت مندرجہ جزء (ج)(۲)----ماں‘ خاوند یا بیوی کو نہیں‘ بلکہ انہیں ایک مقررہ حصہ ہی ملتا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ پہلی جہت (فرع یا اولاد)نہ ہونے کی صورت میں قابل ترجیح جہت ابوۃ (باپ ہونا)ہے۔

٭      اب پھر غور کیجئے جب نہ اصل موجود ہو ‘نہ فرع (یعنی نہ اولاد ‘نہ باپ جسے کلالہ کہتے ہیں)تو بھائی بہن (اطراف)کووراثت کا حق دار ٹھہرایا گیا(۳)۔ بیوی اور خاوند کو ان کے مقررہ حصوں سے زیادہ پھر بھی نہیں دیا گیا۔معلوم ہوا کہ اسبابِ وراثت میں ’’اطراف ‘‘تیسری جہت ہیں جو پہلی دونوں جہات کی عدم موجودگی میں قابل ترجیح ہوں گے۔

        پس اسباب میراث دو ہوئے :نکاح اور نسب  ----پہلی قسم کے وارث (یعنی زوجین)تو ہر حالت میں حصہ پاتے ہیں  ----اور نسبی ورثاء کی پھر تین قسمیں ہیں:فرع‘ اصل اور اطراف۔ فرع اور اصل تو بیک وقت وارث ہوں گے اور ایک قسم کے نہ ہونے کی صورت میں دوسری قسم وارث بنے گی اور ان دونوں کی عدم موجودگی میں تیسری قسم (اطراف)وارث ہوگی۔

        قرآن سے تو اسبابِ میراث یہی معلوم ہوتے ہیں۔ احادیث نبوی سے (ان تمام اقسام کی عدم موجودگی میں)ایک اور سبب میراث کا بھی پتہ چلتا ہے ‘یعنی ’’ولایۃ العتاقۃ‘‘(۴)(آقا کا اپنے آزاد کردہ غلام کا وارث بننا جبکہ اس آزاد شدہ غلام کا اپنا کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہ ہو)اور یہی تین اسبابِ میراث بالاتفاق تمام مسلمانوں میں(۵)  مسلّم ہیں ‘یعنی نکاح‘ ولاء اور نسب   ----اور غور کیجئے تو دراصل سبب میراث دو ہی بنتے ہیں یعنی نسب اور سبب ‘کیونکہ نکاح و ولاء ہر دو مؤخر الذکر میں آجاتے ہیں۔

        اسبابِ وراثت کے بیان کے بعداب ان اسباب کا بیان کرنا بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے اسلام میں کوئی شخص وراثت پانے سے محروم کر دیا جاتا ہے‘ لہٰذا اگلے باب میں اس سے بحث ہوگی۔

حواشی اور حوالہ جات

)۱(      تفسیر احمدی ازملا جیون ‘صفحہ ۱۶۵(یہ ملا جیون اورنگ زیب عالمگیر کے استاد تھے)۔

)۲(     مقالہ ہذا ‘صفحہ ۴۴۔

)۳(    ایضاً ‘صفحہ ۴۵جزء (ھ)۔

)۴(     مطابق حدیث ((الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب))۔ بلوغ المرام‘ صفحہ ۱۹۷بحوالہ ابن حبان و حاکم۔

)۵(     خوارج کی فقہ بھی قریباً اہل السنت کے مطابق ہے۔ اسی لیے بعض دفعہ انہیں اہل السنت کا پانچواں مذہب بھی کہتے ہیں۔ (چار مشہور مذہب احناف ‘ شوافع‘ موالک اور حنابلہ کے ہیں)۔ البتہ وہ ولایۃ العتاقہ کے قائل نہیں ہیں اور ایسی جائیداد کو خیرات کر دینے کا حکم دیتے ہیں ((Muslim Institutions, p. 141 اسی طرح شیعہ سنی میں ولایۃ العتاقہ کی شرائط میں بھی باہم قدرے اختلاف ہے (تفصیل کے لیے دیکھئے جامع الاحکام‘۱/۵۲)یہ سید امیر علی صاحب کی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے۔ اصل مولف مرحوم معتزلی تھے (اور دیباچہ میں اس بات کا خود انہوں نے اعلان کیا ہے)اس لیے بعض مسائل میں ان کی آراء قابل مطالعہ ہیں۔

 

 

باب سوم

حجاب اور منع کے قواعد اور ان میں فرق

        کسی شخص کے وراثت سے بالکل ہی محروم رہنے یا اس کے حصے میں کمی آجانے کے دو باعث ہوسکتے ہیں: منع یا حجاب۔ یہ دونوں لفظ لغۃً متحد المعنی ہیں یعنی دونوں کے معنی روک دینے کے ہیں‘ لیکن اصطلاحاً ان میں بڑا فرق ہے اور اس فرق کو ذہن نشین کر لینا نہایت ضروری ہے۔(۱(

        اصطلاح میں ’’منع‘‘ اسے کہتے ہیں کہ کسی شخص میں ’’اسبابِ منع ارث‘‘ میں سے کوئی سبب پایا جائے۔ ایسے شخص کو وراثت سے مطلقاً کچھ نہیں ملتا اور اسے ’’ممنوع الارث‘‘ کہتے ہیں  ---- اسبابِ منع ارث حسب ذیل ہیں۔(۲(

٭      اختلافِ دینین :یعنی مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔ بوجہ حدیث ((لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ)) (۳)۔ایک مذہب کا غیر مسلم دوسرے مذہب کے غیر مسلم کا وارث ہوسکتا ہے اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں ‘گو مختلف فرقوں سے ہوں ‘لیکن تقسیم وراثت میں شخص متوفی کے مسلک کی رعایت کی جائے گی۔(۴(

٭      قتل :یعنی قاتل اپنے مقتول کا وارث نہیں بن سکتا ‘اس کی بنیاد بھی حدیث ہے: ((لَیْسَ لِلْقَاتِلِ مِنَ الْمِیْرَاثِ شَیْیٌٔ))(۵)اس میں قتل کی نوعیت وغیرہ کے متعلق جزئی اختلاف موجود ہے۔(۶(

٭      الرق: یعنی غلام ہونا بموجب حدیث((مَنْ بَاعَ عَبْدًا لَہٗ مالٌ فَمَالُـہٗ لِلْبَائِعِ اِلاَّ اَنْ یَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ))(۷) کیونکہ غلام کو وارث بنانا دراصل اس کے مالک کو وارث بنانا ہے۔

٭      اختلافِ دارین یا حرابہ: یعنی دارالاسلام کا رہنے والا دارالحرب کے رہنے والے مسلمان کا نہ مورث بن سکتا ہے ‘نہ وارث۔

        پہلے تین اسباب مسلمانوں کے تمام فرقوں کے نزدیک متفق علیہ ہیں۔ صرف چوتھی وجہ میں اختلاف ہے۔(۸(

        خیال رہے کہ ممنوع الارث کا وجود بھی قوانین وراثت کے لحاظ سے کالمعدوم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کسی دوسرے کے حصے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ مثلاً اگر کسی آدمی کا ایک ہی بیٹا ہو اور وہ کافر ہو (ماں باپ کے نومسلم ہونے کی صورت میں‘ مثلاً)یا اپنے باپ کو قتل کر دے تو اس آدمی کی بیوی (اس کافر یا قاتل کی ماں)کو اپنے خاوند کی جائیداد سے ۴/۱ہی ملے گا اور اس بیٹے کی وجہ سے  ۸/۱ نہیں ہوجائے گا ۔اسی طرح اگر کوئی شخص مرنے کے بعد ایک غیر مسلم بیٹا اور ایک مسلم پوتا چھوڑ جائے تو بیٹا ممنوع الارث ہوگا اور اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی پوتاکل جائیداد کا مالک ہوگا (۹)۔

حجاب

        جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے لغت میں حجاب اور حجب کے معنی بھی روکنے یا ڈھانپ لینے کے ہیں۔ اسی لیے پردہ کو بھی حجاب کہتے ہیں اور چوکی دار (گیٹ کیپر)کو بھی حاجب کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی سدانت (متولی یا پروہت ہونا)کو  ----جوبنی قصی کے ہاتھ میں تھی ‘بھی اسی لیے حجابہ کہتے تھے‘ کیونکہ اس کی حفاظت اور کنجیاں ان کے ہاتھوں میں تھیں۔ لیکن اصطلاح شرعی میں ایک وارث کے دوسرے وارث کی موجودگی کی وجہ سے اپنے حصے سے بالکل محروم ہوجانے یا اس کے حصہ میں کمی واقع ہونے کو حجاب یا حجاب بالشخص کہتے ہیں (۱۰)اور جس شخص کے حصے پر اثر پڑ رہا ہو اسے ’’محجوب الارث‘‘ کہتے ہیں۔

        آیات و احادیث میں غور و فکر اور قرآن کے احکام وراثت کے تتبع واستقراء سے فقہاء نے حجاب بالشخص کو دو قاعدوں پر مبنی قرار دیا ہے۔ (۱۱(

)۱(      تقدیم یا ’’اولویت‘‘: --- یعنی بعض وارثوں کو دوسروں پر مقدم سمجھنا۔ یہ قاعدہ قرآن حکیم کی آیت  {وَاُولُوالْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ} (۱۲)سے اور آیات میراث کے مختلف احکام سے مستنبط ہوتا ہے(۱۳)۔ اور ویسے عقلاً بھی یہ بات بد یہی سی ہے کہ آخر سب وارث یکساں نہیں قرار دیے  جاسکتے۔پھر یہ تقدیم علی الترتیب تین لحاظ سے کی جاتی ہے:

 )الف)   تقدیم بالجھۃ : یعنی فرع (اولاد)کو اصل (باپ دادا)پر اور اصل کو اطراف (بھائی بہن)پر مقدم کیاجائے گا۔(۱۴(

)ب)   تقدیم بالقرب :یعنی جب وارث جہت کے لحاظ سے برابر ہوں تو پھر ان میں سے جس شخص اور میت کے درمیان کم واسطے ہوں گے اسے ان اشخاص پر مقدم کیا جائے گا جن کے اور میت کے درمیان مقابلتاً زیادہ واسطے ہوں گے (۱۵)۔ اسی قاعدے کو مختصراً ’’الاقرب فالا قرب‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ اسی قاعدے کی رو سے بھائی کو بھتیجے پر اور بیٹے کو پوتے پر مقدم کیا جاتا ہے اور یہی قاعدہ ہماری ساری بحث کامرکز ہے۔

)ج)  تقدیم بالقوۃ :جب وارث جہت میں بھی برابر ہوں اور قرابت میں بھی یکساں تو قوی قرابت والے کو مقابلتاً کمزور قرابت والے پر ترجیح دی جائے گی۔ مثلاً اخ شقیق (حقیقی بھائی)کو اخ علاتی (صرف باپ کی طرف سے بھائی)پر مقدم کیا جائے گا۔

)۲(     حجاب بالشخص کا دوسرا قاعدہ ’’ادلاء‘‘ ہے اور وہ یہ ہے کہ جن دو آدمیوں کا باہمی رشتہ براہ راست نہیں بلکہ کسی اور درمیانی واسطے کے ذریعے سے ہے تو یہ دونوں شخص اس درمیانی واسطے کی موجودگی (زندگی)میں ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس قاعدہ کی اصل تو سورۃ النساء کی آیت۱۱ہے۔ یعنی باپ کی موجودگی میں اس کی اولاد محجوب ہوجاتی ہے (۱۶)۔البتہ فقہ فرائض کی تمام کتابوں میں اس قاعدے کا ایک استثناء تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اخیافی بھائی یا بہن (صرف ماں کی طرف سے بھائی بہن)اپنی ماں کی موجودگی میں بھی حصہ پائیں گے (جس صورت میں وہ وارث بن سکتے ہوں تو)حالانکہ ان کا تعلق میت سے اسی ماں کے واسطہ سے ہے۔ اور وجہ اس استثناء کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ باپ تو اپنی اولاد کو محجوب کرکے تمام حصہ خود پاتا ہے اور اس سے اس کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا‘ کیونکہ اس کے مرنے پر یہ سب جائیداد انہی کو ملے گی ‘لیکن ماں چونکہ کسی صورت میں بھی بقایاتمام جائیداد کی مالک نہیں بنتی بلکہ اس کاحصہ۶/۱ یا ۳/۱ہی رہتا ہے‘ لہٰذا خیافی بھائیوں کا حصہ بھی نکالا جائے گا(۱۷)۔ اس استدلال کی قوت و ضعف سے قطع نظر (کیونکہ یہ موضوع بحث سے خارج ہے)صرف یہ استثناء یادرکھنا چاہیے‘ کیونکہ آگے چل کر اس کا ذکر آئے گا۔

حجاب کی اقسام

        جیسا کہ اصطلاحی تعریف سے بھی ظاہر ہے حجاب با لشخص دو طرح کا ہوتا ہے (۱۸)۔

)۱ (حجاب نقصان: جبکہ حصہ میں صرف کمی واقع ہورہی ہو۔ اس قسم کا حجاب ہر قسم کے وارثوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور اس کی چھ مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔

)۱(      کبھی ایک مقررہ حصے کے بجائے دوسرا مقررہ حصہ ملتا ہے‘ مثلاً اولاد کی موجودگی میں خاوند کا ۲/۱سے ۴/۱ ‘ بیوی کا ۴/۱سے ۸/۱اور ماں کا۳/۱سے۶/۱ہوجاتا ہے۔

)۲(     کبھی بطور ذی فرض (مقررہ )حصہ پانے کی بجائے دوسروں کے ساتھ عصبہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً بیٹی بیٹوں کے ساتھ۔

)۳(    کبھی عصبہ (بقایا کا مالک یا بقایا میں شریک ہونے)کی بجائے بطور ذی فرض کے حصہ ملتا ہے۔ حالانکہ حصہ اس طرح پہلے کی نسبت کم ہوجاتا ہے‘ مثلاً اولادِ نرینہ کی موجودگی میں میت کا باپ۔

)۴(     کبھی حصہ منفرد ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ مشترک ہونے کے باعث کمی ہوجاتی ہے‘ مثلاً دو سے زیادہ بیٹیوں یا ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں۔

)۵(     یہی صورت عصبات میں بھی ہو سکتی ہے ‘مثلاً متعدد بیٹے ہوں تو۔

)۶(     کبھی ذوی الفروض کے حصص کا مجموعہ اکائی سے بڑھ جاتا ہے جسے اصطلاح میں ’’عول‘‘ کہتے ہیں اور پھر ایک تناسب سے سب کا حصہ گھٹایا جاتا ہے یا کسی خاص وارث کا‘ مثلاً مسئلہ منبریہ میں۔ (۱۹(

        کتب فقہ فرائض میں حجاب نقصان کی پوری تفصیلات دی ہوئی ہوتی ہیں(۲۰)جن میں اس طرح کے حجاب کی تمام ممکن صورتوں کا استقصاء کیا گیا ہے‘ لیکن یہ بھی ہمارے مسئلے سے زیادہ متعلق نہیں ہے‘ لہٰذا ان سب کا بیان غیر ضروری ہے۔

)۲( حجاب حرماں: جس صورت میں ایک وارث اپنے حصے سے بوجہ کسی دوسرے وارث کی موجودگی کے بالکل ہی محروم ہو رہا ہو   ---اور دراصل صحیح اصطلاح میں ایسے ہی شخص کو ’’محجوب الارث‘‘ کہتے ہیں۔ اس قسم کے حجاب کی اصل تو وہی دو قاعدے ہیں جو اوپر بیان ہو چکے ہیں( ۲۱)۔یعنی قاعدہ ’’ادلاء‘‘ اور تقدیم بالقرب  --- لیکن فقہاء کے نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لیے اس کی مزید توضیح بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ ہمارا موضوع بحث بھی یہی ہے۔

        پہلے بیان ہو چکا ہے کہ چھ وارث ایسے ہیں جو شیعہ سنی کسی کے نزدیک بھی کسی صورت میں بھی ’’محجوب الارث‘‘ یعنی بالکل محروم نہیں ہو سکتے(۲۲) ۔ ماں‘ باپ‘ بیٹا‘ بیٹی‘ خاوند اور زوجہ  ---- کیونکہ ان کاتعلق میت سے براہِ راست ہوتا ہے اور باقی تمام قسم کے وارث انہی اصلی وارثوں میں سے کسی نہ کسی کے ذریعے اور واسطے سے رشتہ رکھتے ہیں۔ اس واسطہ کی موجودگی (زندگی) میں تووہ ویسے وارث نہیں بن سکتے‘ مثلاً باپ کی موجودگی میں باپ کا باپ (دادا) اور بیٹے کی موجودگی میں اس بیٹے کا بیٹا(پوتا) حصہ نہیں پا سکتے (۲۳) ۔ اور اگر وہ درمیانی واسطہ زندہ موجود نہ ہو تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

)۱(      یا تو بالواسطہ رشتے رکھنے والے تمام وارث برابر کے درجے کے ہوں گے یعنی میت اور ان تمام وارثوں کے درمیان یکساں واسطے ہوں گے (اور اسے اصطلاح میں ’’استواء قرابات‘‘ کہتے ہیں) تو اس صورت میں سب وارث جائیداد میں حسب قواعد شرعی حصہ دار ہوں گے ‘مثلاً صلبی اولاد کی عدم موجودگی میں اولاد کی اولاد کو اولاد کی طرح ورثہ ملے گا(۲۴)۔ یعنی وہ اولاد کی قائم مقام سمجھی جائے گی۔ (۲۵(

)۲(     یابالواسطہ رشتہ رکھنے والوں میں درجوں کا تفاوت ہو گا۔ یعنی بعض کم واسطوں سے میت سے تعلق رکھتے ہوں گے اور بعض زیادہ واسطوں سے۔ اس صورت میں پہلی قسم کو (جسے اصطلاح میں اقرب کہتے ہیں) دوسری قسم (ابعد) پر مقدم کیا جائے گا۔ (۲۶(

        گزشتہ دو ابواب میں وراثت پانے یا وراثت سے محروم ہونے کے جو اصول بیان ہوئے ہیں‘ ان کی بنا پر فقہاء و ائمہ نے سہولت فہم کی خاطر استحقاقِ وراثت کی ترتیب کے لحاظ سے ورثاء کو مختلف گروہوں‘ طبقوں یا درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ اگرچہ اس تقسیم طبقات میں باہم کچھ اختلاف ہے ‘لیکن جیسا کہ پہلے بیان ہو چکاہے‘ جزوی اختلاف کے باوجود فقہ حنفی اور فقہ جعفری (اثنا عشریہ) کو باقی تمام مکاتب فقہ کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگلے باب میں مختصراً ہر دو فریق کی تقسیم طبقات ورثاء بیان کی جاتی ہے تاکہ اصل مسئلہ پر ہر دو فریق کی رائے اور مسلک باآسانی معلوم ہو سکے۔

        یہ خیال رہے کہ بالاتفاق سب کے نزدیک پہلے ترکہ میں سے حقوق شرعی مثلاً زکوٰۃ وغیرہ اگر کوئی ہوں‘ میت کی تجہیز و تکفین کے مصارف‘ قرضے اور وصیتیں پوری کی جائیں گی۔ اس کے بعد بقیہ جائیداد علی ترتیب استحقاق وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔

حواشی اور حوالہ جات

)۱(      احکام المواریث ‘ص ۱۴۶ وفتاوی المیراث ‘ص ۲۴۔ نیز اس پر بحث کے لیے دیکھئے : حجۃ اللّٰہ البالغہ اردو ترجمہ‘  ۲/۵۲۱۔

)۲(     کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ ص۴۔ یہ شیعہ فقہ فرائض کی مستند اور مشہور کتاب ہے ‘نیز دیکھئے سراجی ص۴‘ والمواریث الاسلامیہ‘ ص ۱۹۔

)۳(    بلوغ المرام‘ ص ۱۹۵ (متفق علیہ(

)۴(     جامع الاحکام‘ ج۱‘ ص ۷۸ نیز امیر علی کا محمڈن لاء (انگریزی) صفحہ ۱۰۔

)۵(     بلوغ المرام‘ ص ۱۹۷ بحوالہ نسائی و دارقطنی ---- نیز یہ حکم عقلاً جس سیاست پر مبنی ہے وہ مخفی نہیں‘یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے اکثر قانون بھی قاتل کو ممنوع الارث ٹھہراتے ہیں ‘مثلاً فرانسیسی قانون (تفصیل کے لیے دیکھئے المقارنات الشریعیۃ ج۴‘ص۳۱) یہ کتاب فقہ مالکی اور فرانسیسی قانون کے تقابل پر لکھی گئی ہے اور نہایت معلومات افزا کتاب ہے۔

)۶(     جامع الاحکام‘ ج۱‘ ص ۷۹۔

)۷(    کتاب الام للشافعی‘ ج۴‘ ص ۳۔

)۸(     اس کے متعلق سید امیر علی صاحب نے بہت عمدہ اور دلچسپ بحث کی ہے ‘تفصیل کے لیے دیکھئے جامع الاحکام‘ ج۱‘ ص ۱۰۲

)۹(     احکام المواریث‘ ص ۱۵۲ و جامع الاحکام‘ ج۱‘ ص ۷۶۔

)۱۰(    شریفیہ ‘ ص۴۳‘  کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ ص ۹۔

)۱۱(     المواریث الاسلامیہ‘  ص ۳۶۔

)۱۲(    الانفال :  ۷۵ و الاحزاب:۶۔

)۱۳) (دیکھئے مقالہ ہٰذا کا صفحہ ۴۴‘۴۵ آیات مندرجہ تحت جزء (ج) و (د) و(ھـ

)۱۴)  (دیکھئے مقالہ ہٰذا‘ ص ۴۷۔

)۱۵(    احکام القرآن ابن العربی‘ ج۱‘ ص ۴۰ و فروع الکافی‘ ص ۴۳‘ (یہ کتاب شیعہ کی کتب احادیث میں نہایت معتبر بلکہ ان کی صحاحِ اربعہ میں سے ہے) بلکہ تمام کتب فرائض میں یہ چیز بیان ہوئی ہے۔

)۱۶(    مقالہ ہٰذا صفحہ ۴۵‘۴۶‘ بلکہ شیعہ کے ہاں تومیت کی صرف ماں کی موجودگی میں بھی اس کے بھائی بہن محروم رہیں گے۔ دیکھئے تفسیر  ابوالفتوح رازی ج۳‘ ص ۱۲۴۔ یہ بزرگ چھٹی صدی ہجری کے مشہور شیعہ محدث اور مفسر تھے۔ تفسیر فارسی میں ہے اس لیے عنوان اس طرح چھپاہے جو عربی میں محل نظر ہے۔

)۱۷(    شریفیہ‘ ص۴۴ (حاشیہ)‘ المواریث الاسلامیہ‘ ص ۳۶ (حاشیہ) نیز جامع الاحکام‘ ج۱‘ص۸۲۔

)۱۸)  (کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ ص۸۔۱۰ والمواریث الاسلامیہ ص۳۴۔۳۶۔

)۱۹ (یہ مسئلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذہنی و علمی کرامات میں سے ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے  المواریث الاسلامیہ‘ص ۷۸۔

)۲۰(    مثال کے طور پر دیکھئے  احکام المواریث‘ ص ۱۴۹۔۱۵۰۔

)۲۱) ( فتاویٰ المیراث‘ ص ۲۳۔۲۴ (جو فارسی زبان میں شیعہ سنی ہر دو کی فقہ فرائض میں بہت عمدہ اور قابل مطالعہ ہے۔) کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ ص ۱۰‘ سراجی‘ ص۱۶۔۱۷ (یہ حنفی قانون وراثت کی مشہور بلکہ درسی کتاب ہے)۔  شریفیہ‘ ص ۴۳۔۴۴‘ والمواریث الاسلامیہ‘ ص ۳۶۔

)۲۲(    مقالہ ہٰذا‘ ص۴۵‘۴۶‘ نیز الدر المختار ج۲‘ص۳۵۸ وسراجی ص۱۷‘ عالمگیری اردو ‘ج۱۰‘ص۴۲۹ امیر علی کا محمڈن لاء (انگریزی) ‘ ص۱۰۔

)۲۳ (  مقالہ ہذا ‘ ص ۴۹۔

)۲۴ (شیعہ حضرات اولاد کی اولاد میں بیٹوں اور بیٹیوں سب کی اولاد کو لیتے ہیں ‘لیکن اہل السنت صرف بیٹوں کی اولاد کو۔ کیونکہ بیٹیوں کی اولاد حقیقتاً میت کی نہیں بلکہ کسی اور(بیٹی کے خاوند) کی اولاد ہوتی ہے  والاصل حقیقۃ بالنسبۃ الی المجاز۔

)۲۵(    اس کی مفصل بحث تو مقالہ کے آخری حصے میں آئے گی۔سردست ا تنا بتا دینا ضروری ہے کہ بطور اصول کلی کے اصول نیابت یا قائم مقامی کا کوئی مذہب فکر(فقہ) بھی قائل نہیں ہے۔ جب تک ایک درجہ کا کوئی بھی وارث موجود ہے اس اصول کا اطلاق نہیں ہو گا۔ مثلاً ایک آدمی کے کچھ بیٹے بیٹیاں ہیں اور کچھ ایسے پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں ہیں جن کے باپ یا ماں اس (اپنے باپ) کی زندگی میں مر چکے ہیں تو اس صورت میں ان پوتوں یا نواسوں کو کسی کے ہاں بھی اپنے مردہ باپ یا ماں کا قائم مقام تصور نہیں کیا جاتا۔ البتہ جب صلبی اولاد میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو تو اس صورت میں اہل السنت کے نزدیک صرف پوتوں اور پوتیوں کو اور امامیہ کے نزدیک نواسوں اور نواسیوں کو بھی قائم مقام اولاد سمجھا جائے گا۔

        پھر قائم مقامی کی تعبیر میں بڑا اختلاف ہے۔ اہل السنت کے نزدیک قائم مقامی کا مطلب یہ ہے کہ قائم مقام کو اصل مورث کی طرح قرار دیا جائے‘ مثلاً باپ کی عدم موجودگی میں دادا باپ متصور ہو گا‘ ماں کی عدم موجودگی میں نانی کو ماں سمجھا جائے گا۔ اور اسی طرح اولاد کی عدم موجودگی میں پوتے پوتیوں کو اولاد سمجھ کرجائیداد علی الرئوس(Per Capita)تقسیم ہو گی  --- لیکن امامیہ کے نزدیک اولاد کی عدم موجودگی میں اولاد کی اولاد اپنے اپنے باپ یا ماں کی نمائندہ سمجھی جائے گی اور جائیداد ان میں علی النسب(Per Stirpes)تقسیم ہو گی۔ اس تمام اختلاف کی تشریح نیز اولاد الاولاد کی وراثت پر شیعہ سنی موقف کی توضیح حسب ذیل مثال سے ہو گی۔

زید

احمد                             محمود                             صفیہ

رشید             مجید             خالد              زبیدہ            طارق             رضیہ

        اب فرض کیجیے احمد زید کی زندگی میں مرتا ہے۔ اس صورت میں بالاتفاق سب کے نزدیک جائیداد کے وارث صرف محمود اور صفیہ ہوں گے اور اگر احمد‘ محمود اور صفیہ تینوں زید کی زندگی میں مر جائیں تو اس صورت میں اہل السنت کے نزدیک صرف احمد اور محمود کی اولاد کو زید کے بیٹے بیٹیاں سمجھ لیا جائے گا اور اس طرح جائیداد سات حصوں میں تقسیم ہو گی‘ ہر لڑکا۷/۲ اور لڑکی زبیدہ۷/۱ لے گی   ---- لیکن اسی دوسری صورت میں فقہ جعفری کی رو سے پہلے احمد‘ محمود اور صفیہ کے حصے نکالے جائیں گے جو علی الترتیب ۵/۲‘ ۵/۲‘ ۵/۱ ہوں گے ‘پھر ہر ایک کا حصہ اس کی اولاد میں (مرد کو عورت سے دگنا کے اصول پر) تقسیم کیا جائے گا ۔شیعہ نقطہ نظر کے لیے  مختار المسائل صفحہ ۱۵۰ تا ۱۷۰ سے مواد لیا گیا ہے۔ یہ ایران کے تین مشہور شیعہ مذہبی پیشوائوں یعنی آیت اللہ کاشانی اور آقائے نجم الملہ اور آقائے ناصر الملہ کے فتاویٰ اور تحریروں کا ترجمہ ہے اور فقہ شیعہ کی مستند کتاب ہے۔

)۲۶ (احکام القرآن ابن العربی ج۱‘ ص ۱۴۰ و فروع الکافی‘ ص ۴۳ نیز جامع الاحکام ج۱‘ ص ۴۰ وفتاویٰ عالمگیری (اردو) ج۱۰‘ ص ۴۲۲۔

 

 

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

ایک علمی اور فقہی جائزہ (۲)

 

مقالہ نگار: پروفیسر حافظ احمد یارؒ

باب چہارم

وارثوں کے طبقات

فصل اول : فقہ حنفی کی رو سے

فقہ حنفی میں وارثوں کو دو طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے:

(۱) اصحاب الفروض:سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے گا کہ وارثوں میں سے ’’اصحاب الفروض‘‘ کون کون سے ہیں ‘چنانچہ اولاً ایسے لوگوں کا حصہ نکالا جائے گا۔

        ذوی الفروض کل بارہ ہیں (۱) :(۱)باپ(۲)ماں (۳)خاوند (۴)بیوی (۵)بیٹی یا بیٹیاں (جبکہ میت کی صلبی اولادِ نرینہ موجود نہ ہو(۶‘۷)حقیقی و علاتی بہن یا بہنیں (جبکہ میت کی نہ اولاد موجود ہو نہ باپ) --- (۸‘۹) اخیافی بھائی اور بہن (جبکہ میت کے نہ اولاد موجود ہو ‘نہ باپ اور نہ حقیقی بھائی بہن)(۱۰)پوتی (جبکہ میت کی اولاد میں صرف ایک لڑکی موجود ہو(۱۱)دادا (جبکہ میت کا باپ موجود نہ ہو)(۱۲)دادی یا نانی (جبکہ میت کا باپ یا ماں موجود نہ ہو)

نوٹ۔۱:ان میں سے پہلے سات کا ذکر تو واضح طور پر قرآن مجید میں ہے‘ نمبر ۸ اور۹کے متعلق تمام امت کا اجماع ہے کہ سورۃ النساء کی آیت ۱۲اخیافی بھائی بہن کی میراث کے متعلق ہے (اس کی تفصیل میں الجھنا ہمارے لیے خار ج از بحث ہے )۔نمبر ۱۰‘۱۱‘۱۲ کا ذکر قرآن حکیم میں نہیں ہے‘ بلکہ احادیث اور اجتہاد صحابہؓ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین قسم کے وارثوں کے اصحاب الفروض ہونے میں شیعہ سنی کا اختلاف ہے ----پوتی کے متعلق سند حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مشہور فیصلہ سے لی جاتی ہے (۲)۔ اسی طرح دادا دادی کے متعلق بھی مختلف ’’آثار واردہ‘‘موجود ہیں‘ جن کی تفصیل ہمارے لیے غیر متعلق ہے۔

نوٹ۔۲:خیال رہے کہ اصحاب الفروض کا مطلب یہ نہیں کہ ان تمام وارثوں کو ہر حال میں حصہ ملے گا۔ یہاں فرض ضروری اور واجب کے معنوںمیں نہیں بلکہ فریضہ ’یعنی مقرر کردہ حصہ‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور آیاتِ میراث میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے (۳)۔ لہٰذا اصحاب الفروض سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کے مقرر کردہ چھ قسم کے حصوںیعنی ۸/۱‘ ۴/۱‘ ۲/۱‘ ۶/۱‘۳/۱ اور۳/۲میں سے کوئی ایک حصہ حسب ِحالات دیا جاسکتا ہو۔ پس جب وارثوں میں اس قسم کا کوئی شخص یا اشخاص ہوں تو ان کے حصے سب سے پہلے ادا کیے جائیں گے۔ (۴)

نوٹ۔۳:یہ بات قابل ِغور ہے کہ بیٹا کسی صورت میں بھی صاحب فرض نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصحاب الفروض صرف وہ وارث ہیں جنہیں قبل از اسلام عرب جاہلیت میں وراثت سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور قرآن اور شارع ؑنے ان کے حصے مقرر کردیے۔(۵)

(۲)عصبات:جب اصحاب الفروض میں سے کوئی نہ ہو یا ان کے حصے نکالنے کے بعد کچھ بچ رہے تو یہ ’’بقایا جائیداد‘‘ عصبات کو ملتی ہے۔

        لفظ عصبہ دراصل جمع ہے عاصب کی اور پھر اس کی جمع عصبات بنائی جاتی ہے‘ اور اس لفظ (عصبہ) کا اطلاق مفرد‘مثنی اور مذکر ‘مونث سب پر ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے معنی وہ مرد ہے جو باپ کی طرف سے رشتہ دار ہو (قربۃ الرجل لابیہ) یعنی بیٹا‘بھائی‘چچا یا ان کی اولاد نرینہ ۔عرب جاہلیت میں صرف یہی لوگ وراثت کے حق دار متصور ہوتے تھے ۔قرآن حکیم نے چونکہ ذوی الفروض کے حصص مقدم کر دیے ‘اس لیے اب اصطلاح شرعی میں عصبہ اسے کہتے ہیں جو ذوی الفروض کے بعد وراثت کا حقدار ہو۔ اور اس میں بعض صورتوں میں (اور شیعہ کے نزدیک تمام صورتوں میں)برابر کے درجے کی عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔

        پھر عصبات کے مختلف درجات ہیں‘ اس ترتیب درجات کو ’’جہات ِعصوبت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ جہات مقرر کرنے کی بنیاد وہی آیاتِ میراث ہیں جن سے اسبابِ میراث کے باب میں بحث گزر چکی ہے (۶)اور یہ جہات حسب ذیل ہیں (۷):(۱) البنوۃ یعنی اولاد یا اولاد کی اولاد (نیچے تک)ہونا۔(۲) الابوۃ یعنی باپ یا باپ کا باپ (اور اسی طرح اوپر تک)ہونا(۳) الاخوۃ (باپ کی اولاد)یعنی بھائی یا بھائی کی اولاد(نیچے تک) ہونا(۴)العمومۃ (باپ کے باپ کی اولاد)یعنی چچا یا چچا کی اولاد (نیچے تک)ہونا (۵) ولاء۔ پہلے طبقہ کی موجودگی میں دوسرے کو اور دوسرے کی موجودگی میں تیسرے کو کچھ نہیں ملے گا (۸)۔ وعلیٰ ہذا آخر تک۔ اور ایک ہی طبقہ یعنی جہت میں زیادہ قریبی کی موجودگی میں نسبتاً دور والے رشتہ دار کو کچھ نہ ملے گا۔ یعنی قاعدہ  اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ ہر طبقہ کے افراد پر جاری ہوگا(۹)۔اسی قاعدے کی بنا پر یتیم بھتیجا اپنے چچا کے مقابلے پر محجوب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اگرچہ دونوں عصبات کے طبقہ اوّل میں سے ہیں لیکن بیٹا اپنے باپ سے بلاواسطہ تعلق رکھتا ہے اور پوتا بالواسطہ۔ لہٰذا بیٹا اَقْرَباور پوتا  اَبْعَدٹھہرا۔ اسی طرح بھائی کی موجودگی میں بھتیجا اور چچا کی موجودگی میں چچا زاد بھائی محجوب ہوجائے گا۔

        ایک بات ظاہر ہے کہ اگر عصبات میں سے کوئی بھی موجود ہوگا تو جائیداد پوری کی پوری تقسیم ہوجائے گی اور کچھ باقی نہ بچے گا‘ لیکن اگر بالفرض ان تمام میں سے بھی کوئی نہ ہو تو تقسیم وراثت کے لیے علی الترتیب مزید نیچے بھی طبقات مقرر کیے گئے ہیں اور گو یہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں ‘کیونکہ پوتا اور پوتی عصبات کی قسم اول میں سے ہیں ‘تاہم ازدیاد معلومات کے لیے تمام مراتب ِاستحقاقِ وراثت کو حاشیہ میں درج کیا جاتا ہے۔ (۱۰)

فصل دوم:فقہ جعفری کی رو سے

        فقہ جعفری میں نسبی وارثوں کے تین طبقات ہیں اور ہر طبقہ میں دو ذیلی طائفے ہیں۔ پہلا طبقہ دوسرے طبقہ کو اور دوسرا تیسرے طبقہ کو محجوب کر دیتا ہے۔ لیکن ہر طبقہ کے دونوں ذیلی طائفے بیک وقت وراثت پاتے ہیں(۱۱)اس طرح کہ ہر ذیلی طائفہ میں قریب کا رشتہ دار بعید کو محجوب کر دیتا ہے (۱۲)  گویا حجاب با لشخص میں بیان کردہ قاعدہ ’’ادلاء‘‘ (۱۳)کی رعایت ایک حد تک ورثاء کی طبقہ بندی میں کرلی گئی ہے اور دوسرا قاعدہ ’’الاقرب فالا قرب‘‘ہر طبقہ کے دونوں طائفوں پر الگ الگ جاری ہوتا ہے۔

        یہ تقسیم طبقات اس طرح پر ہے (۱۴) (ہرایک طبقہ کے ساتھ اس کے دونوں ذیلی طائفے درج ہیں)۔پہلا طبقہ (ا) والدین (ب)اولاد اور اولاد کی اولاد نیچے تک۔

        دوسرا طبقہ (ا) دادا دادی اور نانانانی اوپر تک (ب)بھائی بہن اور ان کی اولاد نیچے تک ۔

        تیسرا طبقہ (ا) متوفی‘اس کے والدین یا والدین کے والدین کے چچا یا پھوپھی اور ان کی اولاد دراولاد۔(ب) متوفی‘اس کے والدین یا والدین کے والدین کے ماموں یا خالہ اور ان کی اولاد در اولاد۔

        زوج اور زوجہ وراثت سے کبھی محروم نہیں رہ سکتے‘ وہ ہر طبقہ کے ساتھ اپنا مقررہ حصہ پائیں گے اور ان کا حصہ نکالنے کے بعد متروکہ دیگر ورثہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ البتہ چونکہ شیعہ جواز متعہ کے بھی قائل ہیں‘ پس جب مرداور عورت میں متعہ ہوا ہو تو ایک دوسرے کا وارث نہیں ہوسکتا‘ اِلااینکہ بوقت متعہ اس مضمون کی کوئی شرط کرلی گئی ہو(۱۵)۔

        اب دیکھئے اس تقسیم کی رو سے پوتا پوتی طبقہ اول کے طائفہ دوم میں سے ہیں۔ پس اگر تو اس طائفے میں پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں ہی ہوں گے (یعنی ایک ہی درجے کے)تو اپنے اپنے باپ یا ماں کے قائم مقام ہوکر اس طرح وراثت پائیں گے‘ جس طرح ماقبل قسط اول میں حاشیہ میں تشریح کی جاچکی ہے (۱۶)لیکن اگر ان کے ساتھ اسی طائفے کا کوئی ’’اوپر کے درجے‘‘ کا وارث موجود ہوا تو محجوب ہوجائیں گے‘ حتیٰ کہ شیعہ تقسیم وراثت کی رو سے پھوپھی بھی اپنے یتیم بھتیجے یا بھتیجوں کو محجوب کر دیتی ہے(۱۷)کیونکہ قاعدہ الاقرب فالا قرب اہل السنت کے ہاں تو صرف عصبات مذکر میں چلتا ہے‘ لیکن امامیہ کے ہاں بغیر امتیازِ تذکیرو تانیث صرف بلحاظِ رشتہ یہ قاعدہ جاری ہوتا ہے۔(۱۸)

        اگر ان تینوں طبقوں میں سے کوئی بھی وارث موجود نہ ہو تو اہل السنت کی طرح شیعہ میں بھی تقسیم وراثت کے لیے علی الترتیب مزید نیچے کے طبقات مقرر ہیں۔ فقہ جعفری کی رو سے تمام مراتب استحقاق وراثت اخیر تک یوں ہیں:(۱) طبقہ اولیٰ (۲) طبقہ ثانیہ (۳) طبقہ ثالثہ (۴) معتق (آزاد کرنے والا) (۵) ضامن جریرہ (عہدی وارث) (۶) امام علیہ السلام (۱۹)-----ان میں سے ہر پہلی قسم اپنے سے دوسری قسم کو محجوب کردیتی ہے‘ البتہ زوجین ہر حال میں حصہ پائیں گے۔(۲۰)

فصل سوم:شیعہ سنی فقہ کی رو سے پوتے کے متعلق احکام کی عملی وضاحت

        مسئلہ زیر بحث کی اصل حقیقت ذہن نشین کرنے اور فقہ حنفی و فقہ جعفری کے قوانین ِوراثت کو سمجھانے کے لیے گزشتہ دو فصلوں میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے اب اس کی عملی توضیح کے لیے چند مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان تمام مثالوں میں پوتے پوتی وغیرہ (اولاد در اولاد)کو شامل رکھا گیا ہے۔

مثال۱:

متوفی

                                                                       

باپ            ماں             بیٹی              پوتا              بھائی            چچا

 

حنفی فقہ فرائض کے لحاظ سے:باپ ‘ماں اور بیٹی ذوی الفروض سے ہیں‘ اس لیے پہلے ان کا حصہ ۶/۱+ ۶/۱+ ۲/۱=۶/۵ نکالا جائے گا۔ باقی وارثوں میں سے پوتا جہت اول کے عصبات میں سے ہے اور بھائی اور چچا تیسرے اور چوتھے درجے کے۔ پس پوتا ان کو محجوب کر کے بقایا۶/۱ کا مالک ہو گا۔

شیعہ فقہ فرائض کے لحاظ سے:باپ‘ماں ‘بیٹی اور پوتا طبقہ اولیٰ کے وارث ہیں‘ اس لیے یہ بھائی اور چچا کو محجوب کردیں گے ‘کیونکہ وہ طبقہ دوم و سوم میں سے ہیں۔ پھر طبقہ اول کے چار وارثوں میں سے ماں باپ پہلے طائفہ کے ہیں اس لیے پہلے انہیں ان کا حصہ یعنی۶/۱+۶/۱=۳/۱ دیا جائے گا۔اب بیٹی اور پوتا ہر دو طبقہ اول کے طائفہ دوم میں سے ہیں‘لیکن بیٹی پوتے کی نسبت قریب تر ہونے کے باعث پوتے کو محجوب کرکے بقایا ۳/۲حصہ کی مالک ہوگی۔

نوٹ:اسی صورتِ مسئلہ میں اگر بیٹی کے بجائے بیٹا ہو تو بالا تفاق بقایا۳/۲وہی لے گا اور پوتا محجوب ہوگا۔

مثال ۲:

متوفی

                       

دو بیٹیاں          دو پوتیاں         ایک پوتا

اہل السنت کے نزدیک:دونوں بیٹیاں بحیثیت ذوی الفروض ۳/۲ لیں گی اور چونکہ پوتا اور پوتیاں ایک ہی درجے اور طبقے کے عصبات ہیں اس لیے بقایا۳/۱ ان میں   لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـیَیْنِ تقسیم ہوگا (چاہے ان کے باپ مختلف بھی ہوں)دونوں پوتیاں ۳/۱ کا ۲/۱=۶/۱ اوراتنا ہی پوتا لے گا۔

اہل تشیع  کے نزدیک: تمام ورثا طبقہ اوّل ہی کے ہیں   ---- لیکن بیٹیاں قریب تر ہونے کے باعث تمام جائیداد کی مالک ہوں گی اور پوتا اور پوتیاں محجوب ہوجائیں گے۔

مثال ۳:

                        متوفی   

                                                       

دادا             بیٹی              بیٹا              پوتا (یتیم)

فقہ حنفی کی رو سے:دادا بطور ذی الفرض۶/۱ لے گا۔ باقی جائیداد بیٹے اور بیٹی میں۲:۱کی نسبت سے تقسیم ہوگی اور پوتا محجوب ہوگا۔

فقہ جعفری کی رو سے: دادا طبقہ دوم کا وارث ہے ‘لہٰذا محجوب ہوجائے گا۔ طبقہ اول کے وارثوں میں سے بیٹا بیٹی ایک ہی درجے کے ہیں‘ لہٰذا تمام جائیداد ان میں۲:۱کی نسبت سے تقسیم ہوگی اور پوتا محجوب ہوجائے گا۔

مثال۴ :

متوفی

                       

دو پڑوتے         نواسی                    باپ

حنفی فقہ کی بنا پر: باپ بطور ذی الفرض۶/۱حصہ لے گا۔ نواسی ذوی الارحام میں سے ہے ‘لہٰذا اسے کچھ نہ ملے گا اور بقایا۶/۵دونوں پڑوتوں میں (بحصہ برابر)تقسیم ہوگا ‘یعنی ہر ایک کو جائیداد کا۱۲ /۵حصہ ملے گا۔

شیعہ فقہ کی بنا پر:تمام وارث طبقہ اول کے ہی ہیں۔ باپ پہلے طائفے کا ہے پس اسے تو مقررہ حصہ۶/۱ملے گا۔ دونوں پڑوتے اور نواسی طبقہ اول کے طائفہ دوم سے ہیں اور ان میں سے نواسی قریب تر ہے ‘لہٰذا پڑوتے محجوب اور بقایا۶/۵حصہ کی مالک صرف نواسی ہوگی۔

مثال ۵:

متوفی

                                                                                       

بھائی            نواسہ            پوتا              بیٹی              بیوی            دادی

             (دوسری بیٹی سے جو مرچکی ہے)

فقہ حنفی کی رو سے : دادی‘بیوی اور بیٹی ذوی الفروض ہیں پہلے ان کو حصہ دیا جائے گا جو بالترتیب ۶/۱+ ۸/۱+۲/۱ = ۲۴/۱۹ ہوگا۔ نواسہ ذوی الارحام میں سے ہے ‘لہٰذا محروم ہوگا اور بقایا۲۴/۵حصہ پوتے کو ملے گا ‘کیونکہ وہ قسم اول کے عصبات میں سے ہے اور بھائی اس کی وجہ سے محجوب ہوجائے گا۔

شیعہ قانون وراثت کی رو سے:دادی اور بھائی طبقہ ثانیہ میں سے ہیں ‘لہٰذا وہ محجوب ہو جائیں گے۔ بیوی کو اس کا مقررہ حصہ ۸/۱مل جائے گا۔ باقی تمام وارث طبقہ اول کے ایک ہی طائفے سے ہیں‘ لیکن بیٹی قریب تر ہونے کے باعث نواسے اور پوتے کو محجوب کرکے بقایا۸/۷حصہ جائیداد کی مالک ہوگی۔

٭ان چند مثالوں سے دو باتیں بالکل واضح ہیں:

(۱)      پوتا ہر حال میں جائیداد سے محروم نہیں ہوتا ۔وہ ’’محجوب الارث‘‘ ہے ’’ممنوع الارث‘‘نہیں۔ یعنی اسلام میں محض یتیم ہونا کوئی ایسا دیوانی جرم نہیں کہ اس کی سزا میں جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہو(۲۱)۔ بلکہ پوتا بھی بعض خاص حالات میں محجوب ہوتا ہے ‘جس طرح بھائی‘بہن‘چچا‘دادا‘بھتیجا وغیرہ دوسرے وارث بعض خاص حالات میں محجوب ہو جاتے ہیں۔

(۲)  اس تمام تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے (اور ویسے بھی یہ بات بالکل بدیہی سی ہے )کہ ہر وارث کی حیثیت بدلتی رہتی ہے اور اسی لحاظ سے اس کے حصہ میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ فقہاء نے (اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور ان کی مساعی کی جزائے خیر دے)تتبع و استقراء سے ہر قسم کے وارثوں کے تمام ممکن پیش آمدہ حالات کو الگ الگ عنوانات قائم کرکے بھی بیان کیا ہے ‘اس طرح سے وارثوں کی کل ۳۰اقسام بنتی ہیں۔(۲۲)

        اس سلسلہ میں ہمارے موضوع بحث یعنی پوتے اور پوتی کے احکام کا خلاصہ حسب ِذیل ہے: (۲۳)

پوتا

(۱)      جب میت کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اسے بیٹا ہی سمجھا جائے گا۔

(۲)     بیٹے کی موجودگی میں محجوب ہوجاتا ہے ‘چاہے وہ اس کا باپ نہ ہو۔

(۳)    اسی طرح نچلے درجے کا پوتا (مثلاً پڑوتا)اپنے سے اوپر کے درجے کے پوتے سے محجوب ہوجاتا ہے۔

(۴)     کبھی ترکہ ذوی الفروض میں پوری طرح تقسیم ہوجانے کے باعث محروم ہوسکتا ہے۔ (مثلاً جب کسی آدمی کی دو بیٹیاں‘والدین اور ایک پوتا رہ جائے تو۳/۱والدین اور۳/۲بیٹیوں کو ملے گا اور پوتا محروم رہے گا)۔

پوتی

(۱)      میت کا بیٹا ہو نہ بیٹی تو مثل بیٹی کے سمجھی جائے گی۔

(۲)     بیٹے کی موجودگی میں یا اپنے سے اوپر کے درجے کے پوتے سے بھی محجوب ہوجائے گی۔

(۳)    صرف ایک صلبی بیٹی ہو یا اپنے سے اوپر کے درجے کی صرف ایک پوتی موجود ہو تو اس کے ساتھ بطور ذی فرض کے ۶/۱حصہ پائے گی۔

(۴)     اپنے بھائی یا چچا کے بیٹے کے ساتھ عصبہ ہوجائے گی۔

(۵)     اگر ۳/۲میں سے اسے کچھ نہ مل رہا ہو (یعنی جب اوپر کے درجے کی ایک سے زیادہ بیٹیاں یا پوتیاں موجود ہوں)تو اپنے سے نیچے کے درجے کے پوتے کے ساتھ عصبہ ہوکر حصہ پائے گی۔

(۶)     اور اگر ۳/۲میں سے بھی اسے کچھ نہ مل سکتا ہو اور ساتھ عصبہ بنانے والا بھی کوئی نہ ہو تو اس صورت میں محجوب ہوجائے گی۔

        یہ احکام اہل السنت والجماعت کے مذہب کے مطابق ہیں۔ (۲۴)شیعہ قانون وراثت میں پوتے پوتی اور نواسے نواسی کے احکام یکساں ہیں(۲۵)یعنی (۱)اولاد نہ ہونے کی صورت میں ہر بیٹی یا بیٹے کی اولاد اپنے باپ یا ماں کا حصہ علی النسب پائے گی اور(۲)قریب تر بعید کو محجوب کردیتاہے۔

        اس وقت تک جو کچھ خامہ فرسائی کی گئی ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ چچا کی موجودگی میں (اور شیعہ کے نزدیک پھوپھی کی موجودگی میں بھی)بھتیجا (یتیم پوتا)اپنے دادا یا دادی کی جائیداد سے بطورِ وراثت کچھ نہیں پاسکتا۔ اور یہ نتیجہ ہے قرآن کے لفظ ’’الاقربون‘‘ اور ’’اولٰی‘‘ کی قانونی اور فقہی تعبیر کا ۔(۲۶)

        لطف کی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ طریق تعبیر اور اندازِ فکر جدا جدا ہے لیکن نتیجہ بہرحال ایک ہی نکلتا ہے اور سچ پوچھئے تو مسئلہ کے باقی پہلو (مثلاً یہ کہ جب صرف پوتے پوتیاں وارث ہوں تو جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟ علی الرؤوس یا علی النسب؟)ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں  ---اصلی معرضِ بحث اور نفس مدعا ’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ ‘‘میں یہی صورت ہے کہ وہ اپنے چچا کی موجودگی میں کیوں کر محجوب ہوسکتا ہے؟  --- سو اس کے متعلق ہر مکتب خیال کے فقہاء کا طریق استدلال اور اس کا نتیجہ گزشتہ اوراق میں پیش کیا جاچکا ہے۔ لیکن ابھی یہ فسانہ اپنے نقطہ کمال  (Climax)تک نہیں پہنچا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی آپ کے سامنے لانا ہے۔

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      فتاویٰ عالمگیری ۱۰/۴۲۱ ‘ نیز تمام کتب فقہ فرائض۔

(۲)     مصادر الاحکام الشرعیہ ۳/۱۲۴‘ نیز مقالہ ہٰذا کا اگلا باب (پنجم) ملاحظہ کیجیے۔

(۳)    المواریث الاسلامیہ ‘ص۹۔

(۴)کتب فرائض میں عموماً ان تمام حصوں پر فرداً فرداً بحث کی جاتی ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کس کس صورت میں کس کس وارث کو کون سا حصہ ملے گا‘ مثال کے طور پر دیکھئے: المواریث الاسلامیہ ‘ ص۳۱ تا ۳۴۔

(5)    Mohammaden Law F.B.Tyab ji p.826

(۶)نیز دیکھئے مقالہ ہذا‘پہلا حصہ‘ باب دوم‘ عنوان : اسبابِ میراث۔

(۷)    المواریث الاسلامیہ‘ص ۳۴۔ سراجی‘ ص۱۳۔

(۸)     یہ احناف کا مسلک ہے ‘شوافع اور موالک کے نزدیک نمبر ۲اور نمبر۳بیک وقت بھی وارث ہوتے ہیں۔ نیز مقابلہ کے لیے دیکھئے شیعوں کی تقسیم طبقات ورثاء (مقالہ ہٰذا)میں طبقہ ثانیہ۔

(۹)     المقارنات التشریعیہ ۴/۴۷ و شریفیہ‘ ص ۴۳۔۴۴۔

(۱۰)  یہ ترتیب اس طرح پر ہے :(۱) اصحاب الفروض (۲) عصبات (۳)  معتق(آزاد کرنے والا)اور معتق کے عصبات (۴) الرد علٰی ذوی الفروض غیر الزوجین (یعنی خاوند یا بیوی کے علاوہ دوسرے اصحاب الفروض کو بذریعہ رد بقایا بھی تقسیم کر دینا)(۵) ذوی الارحام (وہ وارث جن کا تعلق میت کے ساتھ بذریعہ اس کی بیٹی یا بہن یا ماں یا پھوپھی کے ہو(۶) مولی الموالات (عہدی وارث) (۷)  المقرلہ بالنسب علی الغیر یعنی وہ مجہول النسب آدمی جس کے حق میں متوفی نے کسی ایسی قرابت کا اقرار کیا ہو جو خود اس متوفی کے ذریعے نہیں بلکہ کسی اور واسطے سے قائم ہوسکتی ہو(۸)الموصی لہٗ بما زاد علی الثلث یعنی ایسا شخص جس کے متعلق متوفی نے اپنی تہائی سے زیادہ جائیداد کی وصیت کی ہو (۹)بیت المال۔

نوٹ:پہلی پانچ اقسام اہل السنت کے نزدیک متفق علیہ ہیں‘ آخری چار مراتب میں احناف ‘شوافع اور حنابلہ کا باہمی جزوی اختلاف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے  :   المواریث الاسلامیہ علی المذاہب الاربعہ‘ ص ۱۵‘۱۷۔

(۱۱)     کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ص۲‘ وفتاویٰ المیراث‘ ص۲۳۔۲۴ اور امیر علی محمڈن لاء (انگریزی)‘ ص۹۔

(۱۲)    البتہ طبقہ ثالثہ میں محض قریبی کو وراثت ملتی ہے ‘چاہے وہ کسی طائفے سے ہو ‘دیکھئے ‘مختار المسائل ‘ص۱۶۶۔

(۱۳)  مقالہ ہذا‘پہلا حصہ‘ باب سوم‘ عنوان : حجاب۔

(۱۴)    کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ ص۲‘ نیز مختار المسائل‘ ص ۱۵۴۔

(۱۵)  جامع الاحکام‘ ۱/۷۱۔

(۱۶)    نیز دیکھئے مختار المسائل ‘ص۱۵۶۔ یہ کتاب ایران کے تین مشہور مذہبی رہنماؤں یعنی آیت اللہ کاشانی ‘نجم الملہ اور ناصر الملہ کے فتاویٰ اور تحریروں کا مرتب اردو ترجمہ ہے۔ لہٰذا شیعہ فقہ کی مستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔

(۱۷)    کتاب الفرائض من شرائع الاسلام‘ ص۱۰۔

(۱۸)    امیر علی کا محمڈن لاء (انگریزی)‘ ص ۹۔

(۱۹)     یہاں یہ بیان کردینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ہر قسم کے وارثوں کی عدم موجودگی میں اہل السنت کے نزدیک سب سے آخر پر سرکاری خزانہ (بیت المال)وارث قرار پاتا ہے۔ (دیکھئے اہل السنت کے مراتب استحقاقِ وراثت )لیکن شیعہ وراثت میں بیت المال کے نام سے ہی بیزار ہیں۔ ان کے نزدیک بالکل ہی لاوارث آدمی کا مال امام غائب علیہ السلام کا مال ہے اور غیبت امام میں وہ مال نائب امام یعنی مجتہد کو ملے گا‘ جو اس مال کو اس شہر کے غرباء میں تقسیم کرے گا جس کا متوفی باشندہ تھا۔ (لاوارث مال کے متعلق خوارج کا نظریہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے ‘دیکھئے مقالہ ہذا‘ پہلا حصہ‘ باب دوم کا حاشیہ (۵)۔اس مسئلہ پر دلچسپ اور قابل مطالعہ بحث کے لیے دیکھئے امیر علی کی  جامع الاحکام ۱/۱۷‘ص۵۴ نیز۷۵ ببعد۔

(۲۰)    دیکھئے  مختار المسائل‘ ص ۱۶۵‘۱۶۶۔

(۲۱)    افسوس ہے کہ بعض حضرات کی طرف سے عمداً یا عدم واقفیت کی بنا پر یہ مسئلہ کچھ اسی انداز میں پیش کیا جاتا ہے جواسلام بیزاری کے سٹنٹ سے کم نہیں ہے۔ ادارہ طلوعِ اسلام کراچی کے رسالہ ’’یتیم پوتے کی وراثت‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں  ----’’ملا کا مذہب ہے کہ زید (متوفی دادا)کی ساری جائیداد عمرو (بیٹے)کو مل جائے گی۔ حامد(یتیم پوتا)کو کچھ نہیں ملے گا(یہ پوری مثال مقالہ ہذا کے دوسرے حصہ میں باب دوم فصل اول میں  دی ہوئی ہے)اس کا قصور؟ یہی کہ وہ یتیم ہے‘ باپ کا سایہ نہیں‘ اسے وراثت سے کیوں نہ محروم کیا جائے؟‘‘---(دیکھئے تین اہم مسائل صفحہ ۱۴۴)  ----اس قسم کی تحریروں کا مسئلہ سے نا آشنا لوگوں پر (جن میں عوام ہی نہیں خواص بھی شامل ہیں)جو اثر پڑا ہے اس کا اندازہ اس لطیفہ سے لگا لیجیے:ایک معمر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بزرگ سے دوران گفتگو مقالٰہ ہذا کا ذکر آگیا۔ فرمانے لگے ’’بھئی میں تو اسی لیے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کے نام مکان منتقل کررہا ہوں ‘کہیں میرے بعد ان کے چچا ان سے جھگڑانہ کریں‘‘۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ جب آپ کے والد بزرگوار بھی زندہ نہیں اور مکان بھی آپ کے نام ہے تو پھر آپ کوکیا فکر لاحق ہے؟ فرمانے لگے ’’ارے میاں!یہ جو سنا ہے کہ جو یتیم ہوجائے اسے وراثت سے کچھ نہیں ملتا‘‘۔ گویا ان کے خیال میں باپ کے مرنے پر چونکہ اس کی اولاد یتیم ہوجاتی ہے اس لیے وراثت سے محروم ہوگی ۔اِنا للہ وانا الیہ راجعون!

(۲۲)    دیکھئے  المواریث الاسلامیہ ‘ص۳۵ تا ۳۸‘نیز جدول مؤلفہ علامہ ابن الہائم در کتاب مذکور۔

(۲۳)  سراجی‘ ص۷ تا ۹ و المواریث الاسلامیہ‘ ص ۳۷۔۳۸۔

(۲۴)  سراجی ‘ ص۷ تا ۹ والمواریث الاسلامیہ‘ ص ۳۷۔۳۸ وبدایۃ المجتہد‘ ج۲‘ ص ۳۳۴۔

(۲۵)   فتاوی المیراث‘ ص۱۴‘وجامع الاحکام‘ج۱‘ ص۳۹ نیز بدایۃ المجتہد ‘ج۲‘ ص ۳۳۶۔

(۲۶) اور جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا ’’اقربیت‘‘ کی اس قدر تنقیح کی ضرورت اس لیے درپیش آئی کہ اسلامی قانونِ وراثت میں اصول قائم مقامی بطورِ قاعدہ کلیہ کے عملاً ہرگز جاری نہیں ہوسکتا۔ یہاں شروع ہی سے ورا ثت متعدد سمتوں میں روانہ ہوتی ہے۔ اگر اسے صرف ایک سمت (جہت)مثلاً فرع (اولاد)میں چلنا ہوتا تو سرے سے ’’اقربیت‘‘ کے قاعدے کی ضرورت ہی درپیش نہ آتی۔ اس پر بالتفصیل بحث کے لیے دیکھئے مقالہ ہذا کا دوسرا حصہ ‘باب دوم ‘فصل اول و دوم۔

 

باب پنجم

مقامِ حیرت؟

        اب تک جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یتیم پوتا ’’اقربیت ‘‘ہی کی تشریح کا ’’شکار‘‘ہورہا ہے۔ اس پر یہ خیال آسکتا تھا کہ شاید ’’اَقْرَب‘‘ کی یہ تشریح (جس میں بظاہر اس لفظ کے عرفی و نفسیاتی پہلو کو نظر انداز کرکے محض صرفی و نحوی پہلو کو سامنے رکھا گیا ہے)شاید کسی ایک یا چند منطقی دماغوں کی کاوش اور محض تعبیر ِالفاظ کی شعبدہ گری اور قانونی جمناسٹک ہو۔ لیکن تعجب پر تعجب ہے کہ اقرب کی یہ تعبیر ایسی متفق و مجمع علیہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تیرہ صدیوں میں آج تک کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ آپ وراثت کی کوئی کتاب اٹھالیں۔ چاہے وہ کسی مذہب فکر کی نمائندہ ہو ‘ہر جگہ ’’الاقرب فالا قرب‘‘ کا قاعدہ اور اس کی توضیح میں سب سے پہلی مثال ہی یہی دی ہوئی ملے گی ’’جس طرح بھتیجا اپنے چچا سے محجوب ہوجاتا ہے ‘‘۔زہے قسمت!

        پھر یہ بات صرف فقہاء تک نہیں رہ جاتی‘ بلکہ اس کا سلسلہ آگے چلتا ہے اور دورِ صحابہؓ تک یتیم پوتے کے محجوب ہونے کے بالکل واضح ثبوت ملتے ہیں‘ جن کا ذکر ابھی اسی باب میں ہوگا۔

        سب سے زیادہ استدلال حدیث : ((اَلْحِقُو الْفَرَائِضَ بِاَھْلِھَا، فَمَا بَقِیَ فَھُوَ لِأولٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ)) (متفق علیہ) سے کیا جاتا ہے۔(۱)یعنی اصحاب الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ قریب ترین مرد کو دے دو ---لیکن اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ’’اقرب‘‘ کی طرح یہاں بھی ’’اولٰی ‘‘کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی ہوگی (۲) اور اس احتمال کو بھی مان لیں کہ یہ حدیث کسی خاص واقعہ سے متعلق ہو جس کی جزئیات کا ہمیں علم نہ ہوسکا ہو اور خاص اسی واقعہ یا اس جیسے واقعہ میں ’’اولٰی‘‘اپنے ان معنوں میں لیا جاسکتا ہو ---تو بھی مندرجہ ذیل تصریحات کا کیا کیا جائے؟

(۱)      صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت ؓکا فتویٰ موجود ہے کہ:

ولد الابناء بمنزلۃ الولد، اذا لم یکن دونھم ولد ذکر ذکرھم کذکرھم وانثاھم کانثاھم، یرثون کما یرثون و یحجبون کما یحجبون، ولا یرث ولد الابن مع الا بن (۳)

’’بیٹوں کی اولاد بیٹوں ہی کے حکم میں ہے جبکہ ان کے علاوہ (میت کا)اور کوئی بیٹا موجود نہ ہو۔ ان میں لڑکے لڑکوں کی طرح اور لڑکیاں لڑکیوں کی طرح میراث پائیں گے۔ اور ان میں اولاد ہی کی طرح احکامِ میراث و حجاب جاری ہوں گے اور بیٹے کی اولاد (پوتا یا پوتی)بیٹے کی موجودگی میں وراثت نہیں پائے گی۔‘‘

        انہی زید بن ثابتؓ کے متعلق آنحضرتنے فرمایا تھا :  ((وَاَفْرَضُھُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ))یعنی زیدؓ تمام صحابہ سے بڑھ کر علم الفرائض کے ماہر ہیں۔پھر ان کے اس فتویٰ پر تمام صحابہ کرامj نے اجماع کر لیا تھا(۴)اور اُمت کے کسی فرد نے گزشتہ چودہ صدیوں میں اس پر اعتراض نہیں کیا۔

        خیال رہے کہ اس جگہ  ’’ولد الابن‘‘ سے بوجہ لام معرفہ اور تکرار معرفہ کے صرف زندہ بیٹے کا بیٹا (یعنی وہ پوتاجس کا باپ زندہ ہے)مراد نہیں لیا جاسکتا اور نہ آج تک کسی نے یہ مطلب لیا ہے ‘کیونکہ اولاً تو باپ کے ہوتے اس کی اولاد کو کچھ نہ ملنا خود قرآن سے بدیہی و صریحی طور پر ثابت ہے(۵)ثانیا ًتکرارِ معرفہ میں ثانی سے اول ہی مراد لینا‘ اصولِ فقہ کا قاعدہ کلیہ نہیں ہے جس کی بنا پر یہاں لازماً یہی معنی لیے جائیں۔ ثالثاًحدیث میں لفظ ’’ولد‘‘بصورت نکرہ موجود ہے۔ یعنی پوتے صرف اس صورت میں وارث ہوسکتے ہیں جب ’’کوئی بھی بیٹا‘‘ موجود نہ ہوگا۔ رابعاً اگر زندہ بیٹے کا بیٹا ہی مراد ہوتا تو اس کے لیے سیدھی عبارت یوں ہوتی :  ولایرث ولد الابن مع ابیہ۔

(۲)     اسی صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓکا واقعہ درج ہے (۶)کسی شخص نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے  ----جب وہ عہد ِعثمانی میں کوفہ کے حاکم تھے (۷) ----پوچھا کہ ایک میت کے وارث اس کی بیٹی‘پوتی اور بہن ہیں۔ ترکہ کیوں کر تقسیم ہو؟انہوں نے نصف جائیداد بیٹی کو اور باقی نصف بہن کو دینے کا فتویٰ دیا اور پوتی کو محروم رکھا۔ لیکن ساتھ ہی سائل کو ابن مسعودؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔ انہوں نے بیٹی کو ۲/۱‘ پوتی کو۶/۱(جو مل کر۳/۲یعنی دو بیٹیوں کا حصہ بنتا ہے)اور بہن کو بقایا۳/۱دلایا اور کہا کہ نبی اکرم نے اسی قسم کے مسئلہ میں یہی فیصلہ دیا تھا۔ اہل السنت کی فقہ فرائض میں پوتی کے متعلق احکام اسی حدیث کی بنا پر بہت پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ (۸)

        اس واقعہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ دونوں صحابیوںؓ میں سے کسی نے بھی پوتی کو اپنے مرحوم باپ کا قائم مقام نہیں بنایااور ابن مسعودؓ نے جو حصہ دلایا بھی تو ایک اور حیثیت سے۔

(۳)  فروع الکافی میں امام جعفر صادقؒ سے ایک روایت منقول ہے جس میں مختلف وارثوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کس کو کس پر ترجیح دی جائے گی ‘اس میں آیا ہے: (۹)

ابنک اولٰی بک من ابن ابنک و ابن ابنک اولٰی بک من اخیک … الخ

’’تیرا بیٹا پوتے کے مقابلہ پر اور پوتا بھائی کے مقابلہ پر زیادہ حقدارِ وراثت ہے…‘‘

        پھر ان روایات و احادیث میں ہر طرح کی غلطی اور ضعف کا احتمال و امکان تھا ‘لیکن مقام حیرت ہے کہ جہاں ہم دوسرے سینکڑوں معمولی فروعی مسائل پر علمائے امت کو اختلاف کرتے‘آثار واحادیث پر نہایت بے باکی سے جرح و تنقید کرتے اور فریق ثانی کی تعبیر و تشریح کو خلافِ عقل و نقل ٹھہراتے دیکھتے ہیں‘ وہاں اس مسئلہ پر نہ صرف یہ کہ کسی نے آواز ہی نہیں اٹھائی بلکہ کسی کو کبھی اس میں کسی قسم کی غلطی یا خرابی کا شبہ تک پیدا نہیں ہوا۔ کس کس کا حوالہ دیا جائے ‘جبکہ مخالفت میں کہیں ایک لفظ بھی نہیں ملتا۔ (۱۰)

        اس ضمن میں‘راقم نے خصوصاً ان ائمہ کی طرف رجوع کیا جو اپنے اجتہاد اور عام مسلک سے مخالفت میں خاص شہرت رکھتے ہیں‘ لیکن اس مسئلہ پر سب کو ہمنوا پایا ۔اس کی صرف ایک بہت بڑی مثال علامہ ابن حزم اندلسیؒ کو لیتا ہوں۔ یہ پانچویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں اور انہوں نے تقلید کو بالکل چھوڑ کر اجتہادِ مطلق کا دعویٰ کیا تھا۔ اندلس کے علماء نے اختلافِ رائے کی بنا پر انہیں طعن و ایذا کی آماج گاہ بنا لیا تھا اور مقامی اُمراء کے دل میں ان کے برخلاف شورش پیدا کرکے انہیں خوفزدہ کرنا چاہا ‘لیکن وہ کسی سے نہیں ڈرے۔ امام موصوف نہایت تیز زبان تھے اور مخالفین پر جرح کرنے میں بے باک اور سخت گو فقیہ ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ (۱۱)

        دوسرے بے شمار مسائل کے علاوہ خود میراث کے بعض مسائل (مثلاً عول)میں انہوں نے جمہور کے مسلک سے شدید اختلاف کیا ہے(۱۲)   لیکن اس مسئلہ کے متعلق نہایت خاموشی اور اطمینان سے لکھ دیا:

ولا یرث مع الابن الذکر احد الا البنات والاب والام و الزوج والزوجۃ فقط (۱۳)

’’بیٹے کے ساتھ مل کر سوائے بیٹیوں‘ماں باپ‘خاوند یا بیوی اور کوئی وارث نہیں ہوسکتا۔‘‘

اور آگے چل کر صاف لکھتے ہیں:

ولا یرث بنوالابن مع الا بن الذکر شیئًا، اباھم کان اوعمھم، وھذا اجماع متیقن(۱۴)

’’بیٹے کے بیٹے (پوتے)بیٹے کی موجودگی میں کچھ بھی نہ پائیں گے ‘چاہے وہ (بیٹا)ان (پوتوں)کا اپنا باپ ہو یا چچا ہو‘اور یہ بات قطعی یقینی اجماع سے ثابت ہے۔‘‘

        لیکن یہ اجماع پھر بھی صرف اہل السنت کے لیے حجت ہوسکتا تھا۔ شیعہ (خوارج اور بعض معتزلہ مثلاً نظام کی مانند)حجیت ِاجماع کے ہی منکر ہیں(۱۵)اور ویسے بھی قانونِ وراثت میں اہل السنت سے ان کا سخت اختلاف ہے‘ لیکن اس مسئلہ پر وہ بھی متفق ہیں۔ اگرچہ اس پر پہلے بھی تفصیلاً لکھا جاچکا ہے (۱۶)تاہم مزید قطعیت اور ’’ازالہ شبہات‘‘ کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں:

فلا میراث لولد ولد مع ولد ذکرا کان اوانثی، حتی انہ لا میراث لابن ابن مع بنت، ومتی اجتمع اولاد الاولاد وان سفلوا فاقرب منھم یمنع الابعد … ولا یشارک الاولاد فی الارث سوی الابوین والزوجین (۱۷)

’’ کسی اولاد کی اولاد کو اولاد کے ساتھ وراثت ہرگز نہ ملے گی‘ چاہے وہ (اولاد)بیٹا ہو یا بیٹی‘ حتیٰ کہ پوتا بھی بیٹی کے ہوتے ورثہ نہیں پاسکتا۔اور جب بھی اولاد کی اولاد یا اور بھی نیچے درجے کی اولاد (اپنے سے اوپر کے درجے کی)اولاد کے ساتھ جمع ہوجائے تو زیادہ قریبی دور والے کو محروم کردے گااور سوائے والدین یا زوجین کے اولاد کے ساتھ اور کوئی وراثت میں شریک نہیں ہوسکتا۔‘‘

        الغرض اس تمام مسئلے کا سب سے زیادہ دلچسپ‘قابل توجہ اور حیران کن پہلو یہی ہے کہ کہیں اس کی مخالفت کا سراغ نہیں ملتا (سوائے موجودہ صدی کے) ۔(۱۸)

        آخر آج ہمیں یہ قانون کیوں ظلم اور نامعقولیت دکھائی دیتا ہے؟ (۱۹)  کیا گزشتہ ساڑھے تیرہ سو برس میں امت کے کسی خلیفہ یا امام‘کسی مجتہد‘محدث‘فقیہ‘سیاستدان اور کسی فرد میں اتنی عقل اور رحم نہ تھا کہ اسے یہ مسئلہ چبھتا اوروہ اس کے خلاف احتجاج کرتا؟ دوسرے بے شمار مسائل (اور جن میں سے بعض تو مضحکہ خیز حد تک معمولی ہیں)پر تو ہنگامہ آرا تنازعات اور اختلافات عہد ِصحابہؓ سے لے کر آج تک موجود چلے آتے ہیں۔ خود وراثت ہی کے متعلق کئی مسائل میں صحابہ کرامj میں بھی (اور بعد میں بھی)اختلاف ہوئے اور ان تمام اختلافات کا ریکارڈ کتب حدیث و فقہ میں مل جاتا ہے۔ لیکن یہی ایسا مسئلہ ہے جس پر گویا کبھی کسی نے کچھ سوچا ہی نہیں۔

        پھر یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ زندگی میں شاذ پیش آتا ہو ‘بلکہ روز مرہ کا معاملہ ہے اور صدیوں تک حکومت وقت کے قانون کی حیثیت سے نافذ رہا ہے۔ اور عدالتوں میں آئے دن اس قسم کے معاملات پیش ہوتے ہوں گے ۔اور پھر بھی کسی آدمی کو نہ اس میں کوئی قباحت نظر آتی ہے ‘نہ غلطی۔ تمام اُمت کی اس خاموشی کو محض کورانہ تقلید کہہ دینا بھی چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ خصوصاً جبکہ ساتھ یہ دعویٰ بھی کر دیا جائے کہ اس مسئلہ پر تو نص قرآن میں موجود ہے اور آج تک سب ہی اس کی خلاف ورزی کرتے چلے آئے(۲۰) یا مظہر العجائب والغرائب! قرآن کا منصوص مسئلہ اور امت میں اس کو سمجھنے والے تیرہ سو سال تک غائب!!!

عقل بسوخت زحیرت کہ ایں چہ بو العجی ست!

        میں کہتا ہوں  ----اور ہر غوروفکر کرنے والا مسلمان اسی نتیجہ پر پہنچے گا ----کہ یقینا کچھ ایسے حالات و وجوہات تھے جن کی بنا پر اس قانون کو مکروہ و معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور آج جو نقطہ نظر میں تبدیلی آگئی ہے اور جذبات برانگیختہ ہورہے ہیں‘ تو اس کے پس منظر میں بدلے ہوئے حالات اور ہمارے مدت سے روبہ الحاد معاشرتی اور اقتصادی نظام کو بھی بڑا دخل ہے۔

        افسوس ہے کہ آج تک خاص اس نیت سے ان حالات و وجوہات کا کھوج لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے‘ جنہوں نے بظاہر اس قدر ’’مذموم ‘‘ نظریہ پر حسن و خوبی کے پردے ڈال رکھے تھے۔لیکن مسئلہ کے اس پہلو پر بھی ایک نظر ڈالنا نہایت ضروری ہے اور اگلے باب میں اسی سے بحث ہوگی۔

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      صحیح البخاری‘ج۴‘ص۲۸۴۔وصحیح مسلم ‘ج۵‘ص۵۹اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ شیعہ کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے ‘دیکھئے تفسیر ابو الفتوح را زی‘ج۳‘ ص ۱۳۳۔

(۲)     اس پر مفصل بحث مقالہ ہذا کے دوسرے حصہ میں‘ باب دوم‘ فصل اول و دوم میں کی گئی ہے۔ نیز دیکھئے تین اہم مسائل ‘ص۱۹۵۔۱۹۶۔

(۳)    صحیح البخاری‘ج۴‘ص ۲۸۵۔

(۴)     عینی شرح بخاری‘ج۲۳‘ ص ۲۳۸۔

(۵)     النساء:۱۱ ۔نیز دیکھئے مقالہ ہذا ‘پہلا حصہ‘ باب اول کا آخر۔

(۶)     صحیح البخاری ‘ج۴‘ ص ۲۸۵۔

(۷)    مصادر الاحکام الشرعیہ‘ج۳‘ ص ۱۲۶۔

(۸)     جامع الاحکام‘ج۱‘ ص ۶۳۔ نیز دیکھئے مقالہ ہذا ‘پہلا حصہ‘ باب چہارم کا آخر۔

(۹)     الفروع من الجامع الکافی‘ ص۴۳(یہ کتاب شیعہ کے ہاں وہی درجہ رکھتی ہے جو بخاری اہل السنت کے نزدیک)۔

(۱۰)    نیز دیکھئے ‘مقالہ ہذا کادوسرا حصہ‘ باب اول۔

(۱۱)     تاریخ فقہ اسلامی ۔

(۱۲)    دیکھئے  المحلی‘ج۹ ‘ ص ۲۶۲۔

(۱۳)  المحلی ج۹‘ ص ۲۷۱‘ مسئلہ نمبر ۱۷۲۵۔

(۱۴)  المحلی ج۹‘ ص۲۷۱ ‘مسئلہ ۱۷۲۶۔نیز دیکھئے احکام القرآن ابن العربی ‘۱/۱۴۰۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابن حزم مطلق اجماع سے طے شدہ مسائل میںجن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو‘جحیت اجماع کے منکر ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے دلائل کے لیے دیکھئے ان کی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام‘۴/۱۲۹۔

(۱۵)      اصول التشریع الاسلامی‘ص۳۰۔

(۱۶)      مقالہ ہذا‘پہلا حصہ‘ باب چہارم‘ فصل دوم و سوم۔

(۱۷)    کتاب الفرائض من شرائع الاسلام۔

(۱۸)      نیز دیکھئے مقالہ ہذا کا دوسرا حصہ‘ باب اول

(۱۹)     مثال کے طور پر دیکھئے تین اہم مسائل صفحہ ۱۵۹۔۱۶۰ ----دسمبر۱۹۵۳ء کے بعد سے اس مسئلہ پر اخبارات میں جو بحث و تبصرہ شروع ہوا اس میں ہر جگہ مخالفت میں یہی بات دہرائی گئی ہے۔ نیز دیکھئے اس مسئلہ پر پنجاب اسمبلی کی شائع کردہ پبلک آراء خصوصاً اس کے ص۶۱ تا ۱۲۰ اور ضمیمہ (سپلیمنٹ)جس میں عوام کے خیالات و آراء کے اکثر حصہ میں اسی بات کا اعادہ ہے کہ ’’یہ قانون ظلم ہے اور سراسرنامعقول ہے ‘‘وغیرہ۔

(۲۰)    اخبارات کی بحث کے علاوہ پنجاب اسمبلی نے اس مسئلہ پر جو آراء طلب کرکے شائع کی ہیں‘ اس میں ’’خصوصاً عوام کی آراء میں‘‘بار بار اسی چیز کو دہرایا گیا ہے کہ یہ’’ مسئلہ ظلم ہے۔ قرآن کے برخلاف ہے اور اب قرآن کا اصلی قانون نافذہونا چاہیے‘‘۔ان آراء کے مطالعہ کے بعد آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یا تو علم دین اور فہم قرآن ہمارے زمانے میں دنیا سے بالکل رخصت ہوچکا ہے‘ یا پھر یہ ’’دروازئہ رحمت‘‘ ہمارے ہی لیے کھلا ہے اور پہلے سب محروم ہی رہے    ؎

وکم من عائب قولاً صحیحًا

 

وافتہ من الفھم السقیم

 

باب ششم

خاموشی کیوں؟

        متفرق مطالعہ اور غورو فکر سے اس مسئلہ پر خاموشی کی حسب ذیل وجوہ سمجھ میں آتی ہیں:

(۱)      عربوں میں زمینوں وغیرہ کی ملکیت کا کوئی دیوانی یا مالیاتی نظام نہ تھا کہ شخص متوفی کے بعد پٹواری اور تحصیل دار وغیرہ کے ذریعے نئے وارثوں کو قانونی حق ملکیت دیاجاتا ہو۔ ہر شخص اپنی شادی شدہ اولاد کو اپنی جائیداد کا کوئی حصہ اس کے گزارہ کے لیے دے دیتا تھا ---- (ہمارے دیہاتوں میں آج بھی اس کا رواج ہے۔  گو ملکیت باپ کے نام رہتی ہے‘ لیکن شادی شدہ بیٹے کا پورا حصہ الگ کرکے اسے دے دیا جاتا ہے۔اگرچہ قانونی طور پر کاغذاتِ مال میں وہ اس حصے کا مالک باپ کی وفات کے بعد ہی بنتا ہے) ----اور اس بیٹے کے اپنے باپ کی زندگی میں مرنے پر بھی اس مال یا زمین کا حق ملکیت دادا کی طرف نہیں بلکہ پوتوں کی طرف منتقل ہوجاتا تھا اور نہ ہی چچا اس کے دعویدار ہوتے تھے ‘کیونکہ ان کے نزدیک تو کسی کا حق تسلیم کرلینا ہی ’’سرکاری فیصلہ ‘‘ہوتا تھا---غالباً اسلام کے ابتدائی زمانہ میں یہی دستور جاری رہا ‘تاآنکہ بعد میں منظم حکومتیں اور دفاتر قائم ہوئے۔ چونکہ اس طرح بھی یتیم پوتوں کو چنداں نقصان نہیں پہنچتا تھا‘ اس لیے مسئلہ قابل توجہ نہ بنا۔

(۲)     اسلام نے فرد کو اپنی جائیداد پر سب سے زیادہ حقوقِ تصرف مثل بیع وہبہ وغیرہ کے دیے ہیں۔ اور نہ تو اس کے اس حق تصرف کو بھاری ٹیکسوں یا عدالتی فیسوں کے ذریعے سے ناقابل عمل بنایا ہے اور نہ ہی کوئی فرد اس بنا پر کہ وہ بعد میں جائیداد کا وارث بننے والا ہے‘ اپنے مورث کے حق تصرف کو چیلنج کر سکتا ہے(۱)۔ مالک جائیداد  اپنی زندگی میں جسے چاہے اور جتنا چاہے باآسانی دے سکتا ہے۔ پھر مسلمان کو وصیت کا حکم ہے (۲) خصوصاً اقرباء کے لیے۔ تو ایک سچے مسلمان سے یہ بالکل مستبعد ہے کہ اپنے یتیم پوتوں یا دوسرے محتاج اقرباء کو (جن میں یتیمی اور قرابت ----تبرع کے دو پہلو موجود ہیں)کچھ دیے بغیر مر جاتے ہوں(۳)۔اس صورت میں بھی کوئی جھگڑا نہیں اُٹھ سکتا۔

        یہ ہمارے زمانے کے مسلمانوں کی جہالت کی انتہا ہے کہ وہ اس طرح مال دینے کو بھی گناہ سمجھنے لگے ہیں جیسا کہ میں نے مقالہ کے مقدمہ میں تحصیل دار صاحب کا واقعہ ذکر کیا ہے ‘حالانکہ یہ فعل مستحسن ہی نہیں ضروری ہے‘ بشرطیکہ اس میں کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت نہ ہو۔

(۳)    اسلام کا ایک مستقل قانون نفقات ہے اور اسلامی عدالت کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص کو جو بوجہ صغرسنی افلاس یا نقص اعضاء وغیرہ کسی عارضہ کی وجہ سے دوسرے کا محتاج ہے اس کا نان و نفقہ اس شخص سے دلائے جس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے(۴)۔ اس شرعی قانونِ نفقات کی رو سے یتیم پوتے پوتیاں جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائیں یا اگر ان میں سے کوئی اپاہج وغیرہ ہو تو ان کا نفقہ (گزارہ الاؤنس)بمقدارِ وراثت ان کے چچاؤں پر عائد ہوتا ہے(۵)۔ بلکہ اگر کسی شخص کے اقرباء میں سے کوئی ایسا نہ ہو جس پر اس کا نان و نفقہ لازم قرار دیا جاسکتا ہو تو پھر یہ فرض بیت المال کے ذمے عائد ہوتا ہے(۶)۔ اس قسم کے انتظام اور قانون کے نافذہوتے ہوئے بھی یتامیٰ کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔

(۴)     اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ اپنی رعایا کی بنیادی ضروریات از قسم مکان‘خوراک‘لباس مہیا کرنے کے سامان پیدا کرے (۷)۔ مسلمانوں کی اکثر حکومتوں اور خصوصاً دورِ خلافت ِراشدہ میں اس پر عمل ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں مسلمان تو مسلمان ذمی ضعیف‘ معذور اور ناقابل روزگار بوڑھوں وغیرہ کے بیت المال سے وظائف مقرر تھے(۸)۔ اور صرف مدینہ کے لوگوں کے جو وظائف اور الاؤنس مقرر تھے اس کی مقدار تین کروڑسالانہ تھی(۹)----اور یتامیٰ کے لیے تو بیت المال میں خاص حقوق ہیں (۱۰)۔ یعنی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی طرف سے بے آسرا یتامیٰ کے لیے وظائف مقرر کرے۔ اسلامی حکومتوں میں قاضی (مجسٹریٹ)کے فرائض میں سے تھا کہ وہ اپنے علاقہ (jurisdiction)میں یتامیٰ کے معاملات کی نگہداشت رکھے ۔(۱۱)

        تجربہ شاہد ہے کہ اگر ایسا انتظام ہو تو یتیم ہونا ’’مصیبت‘‘ کی بجائے ایک صفت (qualification) متصور ہونے لگے۔ اس کی ایک مثال ہمارے اپنے زمانے میں ملتی ہے ‘حکومت نے بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لیے گزارہ الاؤنس بھی مقرر کیے تھے۔ اکثر مہاجرین کو دیکھا جو یہ چاہتے تھے کہ زمین وغیرہ چاہے الاٹ ہو یا نہ ہو‘گزارہ الاؤنس ملتا رہے‘ کیونکہ فطرتِ انسانی ’’نفع عاجل ‘‘کو زیادہ پسند کرتی ہے۔

(۵)     اسلامی قانونِ وراثت میں (جبکہ وہ عملاً صحیح طور پر نافذ ہو)جائیداد صرف باپ یا دادا ہی کی طرف سے حاصل نہیں ہوتی کہ اگر یہ دروازہ بند ہوجائے تو لازماً آدمی بے نواہی ہوکر رہ جائے گا‘ بلکہ اس ہمہ گیر قانون میں ماں‘باپ‘خاوند‘بیوی‘بہن‘بھائی‘چچا وغیرہ سب ہی ذریعہ وراثت ہوسکتے ہیں۔ اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص سب کی طرف سے ہی وراثت سے محروم ہوجائے۔ رہا بعض اوقات کسی خاص طرف سے محجوب ہوجانا تو یہ حالت صرف پوتے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے‘ بلکہ چھ اصلی وارثوں کے علاوہ باقی ہر شخص حجب حرماں کی زد میں آسکتا ہے  ----اور یہی غالباً سب سے بڑی وجہ ہے کہ کسی کو خاص پوتے کے محجوب ہونے میں کوئی نامعقولیت نظر نہ آئی۔(۱۲)

        پھر جن صورتوں میں یتیم پوتا محجوب ہوجاتا ہے‘ ضروری نہیں کہ ہر حالت میں وہ قابل رحم ہی ہوتا ہو۔ کئی صورتوں میں اسے ماں کی طرف سے باپ کی نسبت بھی زیادہ جائیداد مل سکتی ہے۔ کتنی دفعہ بالغ اور صاحب ِ اولاد و جائیداد پوتے ہوسکتے ہیں۔ بعض دفعہ دادا جائیداد نہیں بلکہ قرضے چھوڑ کر مر سکتا ہے جن کی ادائیگی اس صورت میں چچا پر واجب ہوگی۔ اکثر صورتوں میں یہ بھی ممکن ہے کہ خود چچا ہی اس سے کم سن اور مفلس رہ گیا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود یتیم کا باپ اس قدر دولت چھوڑ مرا ہو جو اس کے دادا کو کبھی نصیب نہ ہوئی ہو۔ الغرض ’’یتیم‘‘ کے ساتھ ہی ایک ’’انگوٹھا چوستے ہوئے لاوارث بچے کا تصور‘‘حقائق سے زیادہ جذبات پر مبنی ہے۔ اب رہا بعض دفعہ ’’قابل رحم ‘‘ہونا تو اس میں یتیم پوتے کے ساتھ بیوہ بہن‘نادار بھائی اور مفلس چچا بھی شریک ہیں۔ لہٰذا پوتے کو بالخصوص ’’ہدفِ ستم‘‘ سمجھنے کی کوئی خاص وجہ ذہن میں نہیں آسکتی تھی۔

(۶)     معلوم ہوچکا ہے کہ یہ مسئلہ عہد ِصحابہؓ سے چلا آرہا ہے اور ہر مذہب فکر کے فقہاء نے اس پر اجماع کر لیا تھا۔ اور کتاب و سنت پر ایمان‘اجماع کا احترام اور ماہرین فن کی تحقیق پر اعتماد اس زمانے کے مسلمانوں کا طرئہ امتیاز تھا۔ امت کے بہترین دماغوں کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا ان کے نزدیک سب سے بڑی حجت تھی (۱۳)۔ اور اس کے بعد ان کے ذہنوں میں کسی اعتراض کا ابھرنا ہی دشوار تھا۔

(۷)    اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو تقسیم ہو کر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے اجزاء کو پارہ پارہ کرکے نہ تو ان کے بارے میں جداگانہ رائے زنی درست ہوسکتی ہے‘ نہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کے اندر اس کے کسی جزء یا اجزاء کو پیوست کرکے کوئی مفید نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ہر جزء دوسرے اجزاء کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کام کرسکتا ہے اور اس کی خوبی یا قباحت کے متعلق صحیح رائے اسی وقت قائم کی جاسکتی ہے جبکہ پورے نظامِ اسلامی کے تناسب اور عمل میں اسے کام کرتے ہوئے دیکھا جائے۔ قانونِ وراثت اسلامی نظامِ حیات کا ایک جزء ہے اور اس نظامِ حیات کا اپنا ایک مخصوص نظامِ معیشت‘ نظامِ معاشرت‘نظامِ اخلاق‘نظامِ حکومت اور نظامِ تعلیم و تربیت ہے اور قانونِ وراثت کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا قانونِ ہبہ‘قانونِ وصیت اور قانونِ نفقات بھی ہے ‘اور ان سب کا ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی میں نافذ ہونا اور کام کرنا ضروری ہے ۔اس کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ قرآنی احکامِ وراثت اس وقت نازل اور نافذ ہوئے جب ایک مکمل اسلامی نظام اور ایک مثالی اسلامی معاشرہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوچکے تھے۔ ایسے تربیت یافتہ معاشرہ میں یتامی کے لیے مشکلات کا پیدا ہونا ہی مستبعد معلوم ہوتا ہے ----اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ پر تعجب‘ حیرت‘ نفرت اور تنقید کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب اسلامی نظام کی تمام کڑیاں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور اکیلا نیم جان قانونِ وراثت نظامِ اسلامی کے دیگر اجزاء کے ہجر میں سوگوار رہ گیا اور خود بھی قابل ماتم نظر آنے لگا۔

        کم از کم برصغیر پاک و ہند میں یہ مسئلہ (یعنی اس پر اعتراضات )انگریزی اقتدار کے بعد ہی پیدا ہوا ہے جس میں مدت تک قرآن کے مقررکردہ چھ اصلی اور لازمی وارثوں (بیٹا‘بیٹی‘ماں‘باپ‘بیوی‘خاوند)میں سے پانچ کو نظر انداز کرکے ہندو رواجی قانون کے مطابق صرف ایک قسم یعنی بیٹوں اور ان کی اولاد کو حصہ دیا جاتا رہا(۱۴)اور بدلے ہوئے ماحول اور غیر اسلامی معاشرت و معیشت نے اس رواج کو قانونِ شرعی کے مقابلے پر زیادہ پسندیدہ اور جاذبِ نظر بنا دیا۔ یہ اسی رواج کی محبت اور قانونِ شرعی سے عملی بعداور لا علمی کا نتیجہ ہے کہ آج عام مسلمانوں کو  ----یتیم پوتے کا اپنے چچا کی موجودگی میں دادا کی جائیداد سے حصہ نہ پاسکنا اور کسی نوجوان بے اولاد بیوہ کو اس کے خاوند کی جائیداد سے (نکاحِ ثانی پر پابندی لگائے بغیر بلکہ اس کی اجازت دے کر) حصہ ملنا  ----دونوں فعل یکساں نامعقول اور لغو دکھائی دیتے ہیں۔

        چنانچہ اگلے حصے میں یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کے مسئلہ کے اس نئے پہلو یعنی اس پر اعتراضات‘ ان کے محرکات اور پیش کردہ اصلاحات و ترمیمات اور ان کے مضمرات پر تنقیدی نظر ڈالیں گے۔

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      ہمارے رواجی قانون اور اسلامی قانونِ وراثت کے اس لحاظ سے تقابل کے لیے دیکھئے رسالہ ’’یتیم پوتے کا حق وراثت‘‘ ازسید غلام احمد پلیڈر منٹگمری‘ ص۱۳۔۱۴۔

(۲)     اس پر مفصل بحث مقالہ ہذا کے اگلے حصہ میں آ رہی ہے۔

(۳)    کتب فتاویٰ میں پوتوں کے متعلق وصیت کے بعض خاص پیچیدہ سوال ملتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح وصیت کرتے تھے جس سے پوتے کو حصہ بھی بیٹے کے برابر مل جائے اور وصیت بھی ۳/۱سے زیادہ نہ ہو۔ مثلاً ایک آدمی مرگیا‘ اس نے چھ بیٹے ‘ایک پوتا اور ایک پوتی چھوڑی اور وصیت یہ کی کہ پوتے کو ایک بیٹے کے حصے کے برابر ملے اور پوتی کو۳/۱حصہ جائیداد میں سے پوتے کا حصہ نکالنے کے بعد بقایا کا۳/۱ملے۔ اب تقسیم ورثہ کیوںکر ہو؟ جواب:ہر ایک بیٹا۱۵/۲‘پوتا بھی۱۵/۲اور پوتی۱۵/۱ لے گی۔ (دیکھئے مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہؒ‘ ج۴‘ ص۳۷)

(۴)     فتاویٰ عالمگیری ‘ج۲‘ ص ۶۱۸۔

(۵)     فتاویٰ عالمگیری‘ج۲‘ ص ۶۰۷بلکہ باپ کے مفلس ہونے کی صورت میں بھی پوتوں کا نفقہ عدالت دادا پر واجب کرسکتی ہے   ---- ایضاً۔

(۶)     فتاویٰ عالمگیری ‘ج۲‘ ص ۶۱۸۔

(۷)    اسلام کا اقتصادی نظام‘ص۴۵(بحوالہ المحلٰی ابن حزمؒ)نیز اسی کتاب کا صفحہ۱۲۹ اور ۱۳۹ تا۱۵۶۔

(۸)     الفاروق ‘ ص ۱۵۷بحوالہ کتاب الخراج۔

(۹)     الفاروق ‘ص ۷۷بحوالہ یعقوبی۔

(۱۰)    احکام القرآن للجصاص‘ج۲‘ ص ۶۷اور اصل تو اس بارے میں قرآن کا حکم صریح موجود ہے‘ دیکھئے  الانفال:۴۱ والحشر:۷  --- یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ دور انحطاط میں مسلمان حکمرانوں نے تو اپنے اس قسم کے فرائض سے روگردانی اور تغافل شروع کر دیا‘ لیکن غیر مسلم حکومتوں نے اس قسم کے قوانین اپنانے شروع کر دیے۔ انگلستان میںاٹھارہویں صدی کے بعد Poor Lawاور بعد میںSocial Security Act نافذ ہوئے ۔ جرمنی میں متعدد قسم کی پنشنیں اور الاؤنس اور سرکاری گھر  (Shelter Homes)وغیرہ رائج ہوئے۔ تفصیلات کے لیے کیمبرج کی ’’تاریخ یورپ‘‘ اور امریکن فاضل E.M. Burnsکی کتاب "American Social Security System"ملاحظہ فرمائیں۔

(۱۱)   Muslim Institutions:  Page148 ۔ ویسے اسلامی فقہ یا سیاسیات کی ہر کتاب میں جہاں جہاں بھی ’’منصب ِقضاء ‘‘سے بحث کی گئی ہے‘ یہ بات بیان کی گئی ہے۔ اس وقت یہی حوالہ مستحضر تھا۔

(۱۲)    نیز دیکھئے غلام دستگیر نامی کا مکتوب مطبوعہ اخبار نوائے وقت لاہور مورخہ ۱۷ دسمبر ۱۹۵۳ء صفحہ۳‘کالم ۵‘۶‘۷۔

(۱۳) اور یہ بہت بڑی ناانصافی بلکہ جہالت ہے کہ اکابر مجتہدین امت کے متفقہ فیصلوں کے اتباع اور جاہل آباء کی کورانہ تقلید میں کوئی فرق روانہ رکھا جائے اور سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دیا جائے۔

(۱۴)    لارڈولیم بنٹنگ کے عہد ِگورنری (۱۸۲۸ء تا۱۸۳۵ء)میں مسلمانانِ ہند کے تمام آئین و قوانین طاقِ نسیاں پر رکھ دیے گئے ۔اس کے قریباً پچاس برس بعد بنگال اور مدراس کی صوبائی حکومتوں نے اصلاحِ احوال کی کچھ کوشش کی‘ لیکن تمام نظام اس قسم کا ہوچکا تھا کہ یہ تدبیریں مؤثر ثابت نہ ہوسکیں ۔(دیکھئے جامع الاحکام‘ج۱‘ ص ۲)۔

 

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

ایک علمی اور فقہی جائزہ (۳)

 

مقالہ نگار: پروفیسر حافظ احمد یارؒ

دوسراحصہ

مسئلہ کا جدید پہلو

باب اول

پس منظر

        اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو اس مسئلہ کی مخالفت میں دو طرح کے عنصر پیش پیش نظر آتے ہیں:

(۱)      عوام کا وہ حصہ جو رواج سے الفت اور اسلام سے روایتی وابستگی کے دو متضاد عوامل کی کشمکش میں گرفتار ہے‘ ان کا اطمینانِ قلب اس میں ہے کہ کسی طرح اسلام رواج کی تائید کر دے۔ مسئلہ زیر بحث کے متعلق ان لوگوں کی واحد دلیل یہی ہے کہ یہ جذبہ ٔرحم و شفقت کے برخلاف ہے‘ لہٰذا یہ اسلامی حکم نہیں ہوسکتا۔ قطع نظر اس بات کے کہ قانونی مسائل میں محض جذبہ ٔرحم و شفقت کو کہاں تک مدارِ استدلال بنایا جا سکتا ہے‘ تعجب تو اس بات پر ہے کہ ان لوگوں کا یہی جذبہ رحم‘ اسلامی احکامِ وراثت کی ہی متعدد ایسی صورتوں میں‘ جن کی بنیاد ہی مودت و رحمت پر ہے‘ سنگدلی میں بدل جاتا ہے ۔مثلاً بوڑھی سوتیلی ماں کو باپ کی جائیداد سے یا نوجوان بے اولاد بھاوج (بیوہ) کو اس کے خاوند کی جائیداد سے حصہ دینا کس قدر ناگوار بلکہ خلافِ عقل اورباعث ِفساد نظر آتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے لوگ اپنے تحت الشعور میں یتامیٰ پر شفقت سے زیادہ رواج کی محبت سے متاثر ہیں۔ نیز ایسے لوگوں سے کسی قسم کی علمی اور اصولی بحث و استدلال بے معنی ہے ‘لہٰذا یہ طبقہ ہمارے موضوعِ بحث سے خارج ہو جاتا ہے۔ (۱)

(۲)     دوسرا گروہ جو اس مسئلہ کی علمی و فقہی طریقہ سے مخالفت کر رہا ہے ان حضرات کاہے جو فہم دین کے لیے حدیث رسول کی ضرورت‘ اہمیت اور حجیت کے قائل نہیں ہیں اور قرآن اور صرف قرآن کریم کو ہی حل مسائل کے لیے کافی خیال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یتیم پوتے کو ازروئے قرآن چچا کی موجودگی میں بھی اپنے دادا کی جائیداد سے وراثت مل سکتی ہے۔ ان کے نزدیک قوانین ِوراثت کے بارے میں فقہاء و ائمہ سے قرآن کا مطلب سمجھنے میں غلطی ہوئی ‘بلکہ قرآنی اصولوں کی صریح مخالفت بھی(۲) اور پھر تمام اُمت ان کی کورانہ تقلید کا شکار ہو کر رہ گئی ‘ورنہ اس مسئلے پر تو قرآن کا فیصلہ بالکل واضح تھا۔(۳)

        اگرچہ طریق ِفکر میں کسی وحدت کے نہ ہونے کے باعث اس مکتب خیال کے مختلف مفکرین کے استدلال بھی مختلف اور بعض صورتوں میں باہم دگر مخالف بھی ہیں‘ تاہم چونکہ ان دلائل کے ساتھ ’’قرآنی‘‘ ہونے کا دعویٰ موجود ہے ‘لہٰذا ان دلائل اور ان کے نتائج پر ٹھنڈے دل سے اور قرآن کریم ہی کے احکام کی روشنی میں غور کرنا ضروری ہے۔

        یہاں یہ بیان کر دینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ حدیث کی حجیت کا انکار کرنے والا گروہ اسلام میں بالکل نیا نہیں ہے جو اُمت کے طویل فکری انحطاط اور فقہی جمود کے ردِعمل اور عصرحاضر کے علمی وعقلی مقتضیات کی پیداوار ہے   ---- یہ طبقہ اس وقت بھی موجود تھا جب اُمت میں علمی حرکت اور روحِ اجتہاد اپنے شباب پر تھی   ---- وہ روحِ اجتہاد جس نے امام ابوحنیفہؒ کو اپنے اسلاف کے متعلق یہ کہنا سکھایا تھا کہ ’’وہ بھی آدمی ہیں اور ہم بھی آدمی‘‘ اور جس کی بنا پر امام مالکؒ  نے کہاتھا کہ ’’رسول اللہ کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کا قول ردّ و قبول کے قابل نہ ہو‘‘ (۴)    ---- ہاں تو اُمت کے اس ’’سنہری دور‘‘ میں بھی اس خیال کے لوگ موجود تھے۔ چنانچہ امام شافعیؒ نے اپنی کتابُ الاُمّ  کے ساتویں حصے کتاب جماع العلم میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے : ’’باب حکایۃ قول الطائفۃ التی ردّت الاخبار کُلّھا‘‘ (یعنی اس جماعت کے اقوال کے بیان کا باب جس نے تمام حدیثوں کو رد کر دیا)۔اس باب میں انہوں نے اسی مکتب خیال کے ایک ایسے آدمی سے اپنے طویل مکالمہ و مناظرہ کا ذکر کیا ہے جو اپنے گروہ کے علماء میں سے شمار ہوتا تھا۔ (۵)

        دوسرے مختلف مذاہب فکر کے اختلافات کی طرح اس گروہ کے بعض قدیم اختلافات کا تذکرہ کتب حدیث و فقہ میں ملتا ہے ۔مثلاً یہ کہ قرآن کے تمام احکام یکساں ہیں‘ ان میں فرض‘ واجب ‘مستحب‘ مباح یا عام خاص وغیرہ کی تقسیم ناجائز ہے ‘یا مثلاً یہ کہ جس شخص نے کوئی بھی ایسا عمل کیا جس پر نما زیا کم از کم زکوٰۃ کا لفظ بولا جاسکتا ہے تواس نے اپنا فرض ادا کر دیا‘ اس کے لیے کوئی وقت نہیں ہے ‘گو وہ ہر دن کو دو رکعت پڑھے یا پورے زمانہ میں دو رکعتیں پڑھے ‘یا مثلاً یہ کہ جو چیز قرآن میں نہ ہو وہ کسی پر فرض نہیں ہے‘ وغیر ذلک (۶) ---- لیکن تعجب ہے کہ یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کے مسئلہ پر اس گروہ کے بھی کسی شخص کا کوئی اختلاف منقو ل نہیں ہے  ---- کم از کم ہماری نظر سے نہیں گزرا اور نہ ہی موجودہ ’’مفکرین قرآن‘‘ حضرات نے اس قسم کی کوئی چیز پیش کی ہے۔

        بہرحال اس مسئلہ کی مخالفت کا بیسویں صدی عیسوی سے پہلے کوئی سراغ نہیں ملتا۔ جہاں تک معلوم ہو سکا ہے غالباً برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے خواجہ احمد الدین صاحب مرحوم امرتسر ی اورمولانا حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے اس پر قلم اٹھایا۔

        انیسویں صدی عیسوی کاربع آخر اور بیسویں صدی کا ربع اول متحدہ ہندوستان میں مذہبی مناظروں کی گرم بازاری کا دور تھا ‘اور اسلام‘ عیسائیت اور ہندومت کے مختلف مسائل مثلاً وحی‘ کتب مقدسہ کی تحریف‘ تثلیث و توحید‘ گوشت خوری‘ تناسخ وغیرہ ان مناظروں اور مباحثوں کا موضوع ہوتے تھے۔ امرتسر کے کچھ مسلمانوں نے اس قسم کے مباحثوں کے لیے ایک ’’مجلس مباحثہ‘‘ (Debating Club) کی بنیاد رکھی۔ اسی کلب میں ایک بحث کے دوران اسلامی قانونِ وراثت کے قابل اعتراض پہلو زیرغور آئے اور اس کے بعد خواجہ صاحب مرحوم نے ’’معجزئہ قرآن‘‘ کے نام سے ایک رسالہ پہلی دفعہ ۱۹۱۴ء میں شائع کیا جس میں وراثت کے بعض دوسرے مسائل پر تنقید کے علاوہ یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کے مسئلے کو بھی ازروئے قرآن غلط ٹھہرایا گیا۔ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ امرتسر کی ماہ مئی ۱۹۱۷ء (رجب ۱۳۳۵ھ) کی کچھ اشاعتوں میں اس رسالہ کی تردید میں کچھ مضمون چھپے اور اس طرح کافی عرصہ تک اس پر بحث کا سلسلہ چلتا رہا۔ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ کے مضامین کے علاوہ مولوی غلام مصطفی صاحب اور مولوی نور محمد صاحب ہزاروی وغیرہ نے خواجہ صاحب کی تردید میں متعدد اشتہار شائع کیے۔ اسی طرح انجمن حفظ المسلمین امرتسر کی طرف سے مولوی نور احمد صاحب نے ایک چھوٹا رسالہ ’’التنقید علٰی وراثۃ الحفید‘‘ شائع کیا۔خواجہ صاحب نے جواب الجواب میں مئی ۱۹۱۷ء‘ جون ۱۹۱۷ء‘ اگست ۱۹۱۷ء اور دسمبر۱۹۱۸ء  میں چار ضمیمے شائع کیے۔ بعد میں خواجہ صاحب مرحوم کا رسالہ ’’معجزئہ قرآن‘‘ مع ان چاروں ضمیموں کے --- رسالہ ’’البیان‘‘ (امرتسر) کے جون و جولائی ۱۹۴۱ء کے مجموعی خاص نمبر کی حیثیت سے ’’الوراثۃ فی القرآن‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔

        مولانا حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے خواجہ صاحب مرحوم کے مذکورہ رسالہ ’’معجزئہ قرآن‘‘ کا ملخص عربی ترجمہ ’’الوراثۃ فی الاسلام‘‘ کے نام سے علی گڑھ سے شائع کیا اور بعد میں رسالہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کے جون و جولائی ۱۹۱۸ء کے نمبروں میں اپنا مقالہ ’’محجوب الارث‘‘ شائع کرایا۔ اس مقالہ کی اصل بنیاد خواجہ احمد الدین صاحب کی تحریریں ہی تھیں۔۲۹/نومبر۱۹۱۸ء کے پرچہ ’’اہلحدیث‘‘ میں حافظ ثناء اللہ صاحب مرحوم و مغفور امرتسری نے اس مقالہ کی تردید میں مضمون لکھا۔جس کا جواب الجواب خواجہ صاحب نے دسمبر ۱۹۱۸ء میں اپنے مذکورہ بالا ضمیمہ چہارم میں دیا تھا  ---- حال ہی میں مولانا جیراجپوری صاحب کا مذکورہ مقالہ ادارہ طلوعِ اسلام کراچی نے اپنے کتابچے موسوم بہ ’’تین اہم مسائل‘‘ میں شائع کیا ہے۔

        اس تمام تفصیل سے ظاہر یہ کرنا مقصود ہے کہ اس طرح سے اس مسئلہ پر پہلی مرتبہ ایک نیا نقطہ نظر پیدا ضرور ہو گیا تھا (۷) اگرچہ اسے چنداں اہمیت حاصل نہ ہوئی ‘کیونکہ برطانوی ہند میں جن علاقوں میں قانونِ شرعی نفاذ پذیر تھا وہاں بھی قانوناً قرآن و سنت کی کوئی نئی اور متقدمین کے مخالف تعبیر در خور اعتناء نہیں سمجھی جا سکتی تھی۔ (۸)

        قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں پنجاب میں شریعت ایکٹ

West Punjab Muslim Personal Law (Shariat) Application Act (IX of 1948)

نافذ ہوا۔ عوام مدتِ دراز سے رواجی ہندو قانون سے مانوس و مالوف ہو چکے تھے اور اس رواجی قانون نے بہت سے دیگر عوامل کے ساتھ مل کر ایک خاص قسم کا معاشرتی ومعاشی ماحول پیدا کر دیا تھا ۔اسلامی قانونِ وراثت کی تفصیلات بہت سے دوسرے احکامِ اسلامی کی طرح اَذہان و قلوب سے اوجھل ہو چکی تھیں اور لے دے کر عام لوگوں کو صرف اتنا یاد رہ گیا تھاکہ اسلامی قانونِ وراثت میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی حصہ دیا جاتا ہے‘ اور صرف اتنی سی بات کا تدارک حیلہ جو طبائع کے لیے مشکل نہ تھا ‘لیکن اب جو یہ قانون نافذ ہوا اور اس کے مختلف گوشے سامنے آئے تو کہیں حصہ دینا مکروہ نظر آنے لگا اور کہیں نہ دینا غیر معقول معلوم ہونے لگا۔ غیر اسلامی ذہنیتوں کو اپنی بجائے اسلامی قانونِ وراثت میں ناہمواریاں دکھائی دینے لگیں۔اسلام سے جہالت اور لاعلمی نے اس پر مزید اضافہ یہ کیا کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ جس طرح بیٹی کو کسی حیلہ سے اس کے حصہ سے محروم کرنا شرعی گناہ ہے اسی طرح محجوب الارث کو ہبہ وغیرہ کے ذریعے کچھ دینا بھی شرعاً ممنوع ہے۔ اور ستم پر ستم یہ ہوا کہ بعض غرض مندوں نے عوام کی اس جہالت اور لاعلمی کو خوبexploitکیا اور مسئلہ اصولی سے زیادہ ذاتی بن کر رہ گیا۔اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تحقیق حق و اصلاحِ احوال کی بجائے فتح و شکست کے نظریوں سے اس پر غور کیا جانے لگا۔ خصوصاً دسمبر ۱۹۵۳ء میں پنجاب اسمبلی میں زیرغور لائے جانے کے بعد سے تو یہ مسئلہ (problem) کے بجائے مقابلہ (test)کی شکل اختیار کر گیا۔

        یہ تو اس مسئلہ کے پیدا ہونے اور شدت اختیار کرنے کے سماجی ‘سیاسی اور تاریخی اسباب و حالات کے متعلق ضروری تفصیلات تھیں۔ اب ہم پھر اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں ‘یعنی ان نئے دلائل اور اصول و قواعد سے بحث جن کی رو سے یتیم پوتا محجوب الارث نہیں ٹھہرتا۔

حواشی و حوالہ جات

(۱)      پنجاب لییجسلیٹو اسمبلی نے اس مسئلہ پر جو پبلک آراء شائع کی ہیں اس میں بعض حضرات نے تو صاف قانونِ شریعت کو سرے سے ناقابل تسلیم کہہ دیا ہے۔ دیکھئے ’’Opinions‘‘ کا صفحہ ۸۴

(۲)     تین اہم مسائل‘ ص ۱۶۱ ‘نیز اسی کتاب کاصفحہ۷۔۹

(۳)    ایضاً‘ ص ۲۰۸

(۴)     تاریخ فقہ اسلامی‘ ص ۴۲۰

(۵)     کتاب الام‘ شافعیؒ‘ ج۷‘ ص‘۲۵۰

(۶)     تاریخ فقہ اسلامی‘ ص۲۵۸ تا ۲۶۰

(۷)    ایک ’’اہل علم‘‘ کی زبانی معلوم ہوا کہ مشہور روسی عالم موسیٰ جار اللہ نے اپنی کتاب ’’صحیفۃ الفرائض‘‘ میں اس مسئلہ پر کچھ لکھا ہے۔ افسوس ہے کہ باوجودتلاشِ بسیار کے یہ کتاب کہیں سے دستیاب نہ ہو سکی اور نہ اس مصنف کے دلائل کا ’’اہل علم ممدوح‘‘ نے باوجود میرے خط لکھنے کے کچھ پتہ دیا  ---- حالانکہ ان کے پاس کتابِ مذکور بقول ان کے موجود تھی اور میں بوجہ بعد ِمسافت ان تک پہنچ نہ سکا۔

(۸)     ملا کا محمڈن لاء (انگریزی) صفحہ ۲۷۔۲۸ ‘دفعات ۳۴ تا ۳۶۔

باب دوم

اجتہادِ نو

فصل اوّل :پہلی دلیل

        مجموعی طور پر اس مسئلہ پر جو جدید دلائل تحریر یا تقریر کے ذریعے عوام تک پہنچے ہیں‘ ان سے اس باب کی تین فصلوں میں بحث کی جائے گی۔ یہ دلائل حسب ذیل ہیں: (۱)

(۱)      ’’فقہاء ‘‘سے ’’اقرب‘‘ کا مفہوم تعین کرنے میں غلطی ہو گئی ہے‘ کیونکہ اگر اقرب کے معنی مطلقاً درجہ کے لحاظ سے قریب کے لیے جائیں تو وراثت کے بہت سے مسلمہ اور اجماعی مسائل ٹوٹ جاتے ہیں ‘مثلاًنیچے کی مثال میں دادا کو بیٹے کی موجودگی میں بھی حصہ ملاہے ‘حالانکہ بیٹا بہ نسبت دادا کے میت کا اقرب ہے۔

 

زید (متوفی)

 

دادا (۶/۱)                 (بیٹا(۶/۵)

 

اسی طرح سے اوربھی قدم قدم پر اس پر اعتراض ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا قاعدہ ’’الاقرب فالاقرب‘‘ (جو تقسیم وراثت کا اصل الاصول اور بنیادی قاعدہ ہے)میں اقرب کا صرف ایک ہی مفہوم ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’اقرب وہ رشتہ دار ہے جو بلاواسطہ مورث سے رشتہ رکھتا ہو یا بالواسطہ ‘لیکن بوقت ِوفات مورث کے وہ واسطہ موجود نہ ہو(۲)۔ اقرب کے یہی اور صرف یہی معنی لینے پر ہی یہ قاعدہ قانونِ وراثت میں ٹھیک طور پر چل سکتا ہے اور اس مفہوم کی رو سے یتیم پوتا بھی اپنے چچا سے محجوب نہیں ہو سکتا۔‘‘

        یہ مختصر خلاصہ ہے مولانا جیراجپوری صاحب کے مقالہ ’’محجوب الارث‘‘کا۔ اور قریب قریب یہی مفہوم خواجہ احمد الدین صاحب کے رسالہ ’’الوراثۃ فی القرآن‘‘ سے حاصل ہوتا ہے(۳)۔اور اگرچہ مقالہ مذکورہ نہایت سنجیدہ اور علمی و فقہی انداز میں لکھا گیا ہے‘ لیکن بغائر مطالعہ کرنے سے اس میں چند غلط فہمیاں نظر آتی ہیں۔

        اول تو قاعدہ   الاقرب فالاقرب ‘جس پر انہوں نے اعتراضات قائم کیے ہیں‘ کسی کے نزدیک بھی فقہ فرائض کا اولین بنیادی قاعدہ نہیں ہے ‘جیسا کہ اسی مقالہ کے حصہ اوّل کے باب دوم و سوم میں بیان ہو چکا ہے۔ سب سے مقدم کلیہ تقدیم ذوی الفروض کا ہے۔ اس کے بعددوسرا کلیہ ’’تقدیم بالجھۃ‘‘کا ہے (اور یہ دونوں کلیے اور ان کی ترتیب آیاتِ میراث کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوجاتی ہے)۔اس کے بعد تیسرے درجہ پر قاعدہ ’’الاقرب فالاقرب‘‘ہے۔ چونکہ پہلے دونوں کلیے مقدم ہیں‘ اسی لیے ان کا لحاظ رکھتے ہوئے فقہ اہل السنت میں پہلے ورثاء کو ذوی الفروض اور عصبات میں تقسیم کیا گیا ہے اور قاعدہ مذکورہ اس کے بعد نافذ ہوتا ہے --- اسی طرح فقہ جعفری میں دونوں ابتدائی کلیوں کا لحاظ ورثاء کی طبقہ بندی میں کر لیا گیا ہے اور قاعدہ  الاقرب فالاقرب اس کے بعد نافذ ہوتا ہے ‘یعنی طبقوں پر نہیں بلکہ ذیلی اصناف پر۔

        گویا فقہ حنفی ہو یا جعفری‘ ہر دو کے نزدیک جہاں کہیں قاعدہ   الاقرب فالاقرب پہلے دو کلیوں سے متصادم ہو گا تو اسے ترک کر دیاجائے گا دیکھئے درج ذیل مثال:

 

متوفی

 

پڑپوتا                            بھائی                            باپ

 

اس مثال میں فقہ حنفی کی رو سے باپ کو ذوی الفروض ہونے کی حیثیت سے صرف ایک متعین حصہ(۶/۱) ہی دیا جائے گا اور قاعدہ اقربیت کی بنا پر اسے تمام جائیداد کا مالک نہیں بنا دیا جائے گا۔ اب باقی جائیداد کے لیے بظاہر بھائی پڑپوتے سے قریبی نظر آتا ہے‘ لیکن یہاں پر قاعدئہ اقربیت تقدیم بالجہتہ کے قاعدے سے متصادم ہوتا ہے۔ بھائی جہت اطراف میں سے ہے اور پڑپوتا جہت اصول میں سے اور قرآن نے جہت اصول (اولاد) کے ہوتے ہوئے اطراف (بھائی بہن) کو محروم رکھا ہے(۴) لہٰذا یہاں بھی یہ قاعدہ الاقرب فالاقرب جاری نہ ہوگا بلکہ بلحاظ تقدیم بالجہتہ پڑپوتا بقایا جائیداد کا مالک ہو گا  ---- اسی مثال میں فقہ جعفری کی رو سے تقدیم ذوی الفروض اور تقدیم بالجہتہ کا خیال رکھتے ہوئے باپ اور پڑپوتا طبقہ اول میں رکھے گئے اور بھائی بلحاظ جہت ہر دو سے مؤخر ہونے کے طبقہ دوم میں رہ کر محجوب ہوجائے گا اور باپ اور پڑپوتا چونکہ ایک ہی طبقے کے ہیں ‘لہٰذا ان پر قاعدہ الاقرب فالاقرب جاری نہ ہوگا اور باپ اپنا مقررہ حصہ ۶/۱ پائے گا اور باقی پڑپوتالے گا۔ (نتیجہ دونوں صورتوں میں یکساں ہے‘ صرف طریق استدلال میں فرق ہے۔)

        اب مولانا جیراجپوری صاحب سے پہلی غلطی تو یہ ہوئی کہ انہوں نے قاعدہ  الاقرب فالاقرب کو اصل الاصول اور بنیادی قانون فرض کر لیا (۵) اور دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے جس قدر مثالیں اس قاعدہ کے علیٰ ظاہر المراد غلط ہونے پر پیش کی ہیں وہ تمام کی تمام ایسی ہیں جن میں یا تو مختلف کلیات کا تصادم ہوتا ہے یا وہ اجماعی طور پر مسلمہ نہیں ہیں۔ (۶) مثلاً ان کی دادا اور بیٹے کی مثال جو ابھی گزشتہ صفحہ پر بیان ہوئی ہے اس میں شیعہ کے نزدیک فی الواقع دادا کو کچھ نہیں ملتا  --- اسی طرح انہوں نے ’’مسئلہ مشترکہ‘‘(۷) کی جو مثال دی ہے وہ بھی متنازعہ فیہ ہے۔ (احناف و شوافع کے درمیان)(۸) اور یہی حال باقی مثالوں کاہے۔

        اب ہم مولانائے موصوف کے ’’اقرب‘‘ کے جدید مفہوم کو لیتے ہیں۔ بلاواسطہ رشتہ دار کے اقرب ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں۔ رہا بالواسطہ رشتہ دار ہونا تو اس میں فقہا ء کے نزدیک ’’اقرب وہ ہے جو بلحاظ رشتہ میت سے زیادہ نزدیک ہو‘‘ (من ھو ادنی قرابۃ الی المیت منہ)(۹) ۔ صاف ظاہر ہے کہ جب بالواسطہ رشتہ داروں میں سے زیادہ نزدیک کا رشتہ دار اقرب ہے تو بلاواسطہ رشتہ دار بالواسطہ رشتہ دار کے مقابلے پر یقینا اقرب ہی رہے گا۔ اور اقربیت کا یہی مفہوم وراثت میں ہی نہیں نکاح وغیرہ امور میں بھی لیا جاتا ہے اور ولی نکاح کے بارے میں بھی ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کا اصول استعمال ہوتا ہے (۱۰) --- لیکن مولانا جیراجپوری صاحب کی تعریف کے مطابق درمیانی واسطہ اٹھ جانے سے بالواسطہ اور بلاواسطہ رشتہ دار ایک ہی درجہ کے ہو جاتے ہیں۔ گویا اس طرح کسی عورت کے بھائی کی موجودگی میں اس کا خرد سال یتیم بھتیجا اس کا (اپنی پھوپھی کا) نکاح کرکے دے سکتا ہے  ---- خیر یہ نکاح کامعاملہ تو جملہ معترضہ تھا۔ہمارا اصل مقصد احکامِ میراث میں اقرب کے اس نئے مفہوم کے مضمرات کا جائزہ لینا ہے۔

        مولانا جیراجپوری صاحب اور ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے نزدیک اس قاعدہ کا اطلاق یوں ہو گا۔

        دیکھئے مثال :

زید  (متوفی)

بکرx                                            عمرو

 

حامد                                             رشید

 

        (زید متوفی کی زندگی میں مرنے والوں کے نام کے ساتھxکا نشان بنا دیا گیا ہے)

        عمرو تو اقرب کی تعریف کے پہلے جزء (بلاواسطہ رشتہ دار ہونا) کے باعث اقرب ہے ---- حامد اقرب کی اس نئی تعریف کے دوسرے جزء (بوقت وفاتِ مورث درمیانی واسطہ موجود نہ ہونا) کی بناء پر اقرب ہے‘ لہٰذا دونوں برابر کے حصہ دار ہیں۔ اس پر یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید مرحوم بکر کا حصہ نکال کر حامد کودیا جا رہا ہے‘لیکن اوّل تو مولانا موصوف نے خود ہی اپنے مقالہ میں ایک جگہ وراثت کی ایک مثال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’لیکن ایک بدبخت یتیم پوتا ہی ہے جو اپنے باپ کی عدم موجودگی میں اس کی بجائے اپنے چچا کا بھائی قرار نہیں دیا جا سکتا:

بست شکر بمستاں داد و چشمت مے بمیخواراں         

منم کزغایت حرماں نہ باآنم نہ با اینم (۱۱) ‘‘

 اس سے ظاہر ہے کہ ان کا مقصد مردہ کا حصہ نکالنا نہیں بلکہ یتیم بھتیجے کو چچا کا بھائی بنا کر حصہ دلانا ہے اور اقربیت کا یہ نیا مفہوم بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔تاہم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی مندرجہ ذیل عبارت مزید وضاحت کر دیتی ہے۔ مندرجہ بالا مثال ہی کو سمجھانے کے بعد لکھا ہے  ---- ’’مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ تم زید کے مرنے پر اس کے فوت شدہ بیٹے بکر کا حصہ نکال کر حامد کو دیتے ہو ‘یہ غلط ہے۔ لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ بکر کا حصہ کون نکالتا ہے؟ حصہ صرف اس کا ہوتا ہے جو متوفی کی وفات کے وقت زندہ موجود ہو ‘مردوں کے حصے کوئی نہیں نکالتا۔ قرآن کی رو سے حامد اپنے دادا (زید) کے ترکے میں حق دار ہے‘ اس لیے حامد کو خود اس کا حصہ ملتا ہے نہ کہ اس کے متوفی باپ بکر کا حصہ۔ اگر بکر کا حصہ نکلتا تو اس کی بیوہ کو کچھ مل جاتا ‘لیکن جب بکر کا حصہ ہی نہیں تو بیوہ یا بکر کے دوسرے رشتہ داروں کو کیا ملے گا؟ پھر سن رکھیے کہ حامد کو براہِ راست (زید کے ترکے سے) اپنا حصہ ملتا ہے ناکہ اپنے متوفی باپ (بکر) کا حصہ۔‘‘  (۱۲)

        بات تو واضح ہے کہ بھتیجے کو براہِ راست یعنی چچا کا بھائی بنا کر حصہ ملے گا‘لیکن اب دیکھئے کہ یہ ’’نیا قرآنی نظریہ‘‘ کس قدر مغالطے اپنے اندر مضمر رکھتا ہے۔ اب تک ہمارے سامنے صرف ایک ایسی مثال تھی جس میں ایک چچا اور ایک یتیم بھتیجا موجود ہوں۔ اب چند نئی مثالیں لیجیے۔

        مثال نمبر۱:

       زید (متوفی)

 

بکرx                            عمروx                            نذیرx                            رشید

خالد             رضیہ

ناصر             صابر

حامد              محمود

   صفیہ

 

 

 

        (زید متوفی کی زندگی میں مرنے والوں کے ناموں کے ساتھxکا نشان ہے)

        گویا اس مثال میں رشید کے سات بھتیجے اور بھتیجیاں اس کے بھائی بہن کر اس کے ساتھ زید (دادا) کی جائیداد سے حصہ پائیں گے ‘کیونکہ درمیانی واسطہ اُٹھ جانے سے وہ رشید کے درجے کے اقرب بن گئے ہیں  --- اس طرح رشید کو کل جائیداد کا ۷/۱ حصہ ملے گا ‘حالانکہ اگر اس کے بھائی زندہ ہوتے جب بھی اسے۴/۱ ملتا۔یہ کس بات کی سزا؟ کیا چچائوں سے گزشتہ تیرہ سو برس کا بدلہ لینے کے لیے تو یہ فارمولا تیار نہیں کیا گیا؟

        پھر اسی قاعدے کی رو سے بیٹیوں کی وفات کی صورت میں ان کی اولاد بھی اپنے ماموئوں کے ساتھ اقرب ہو کرنانا کی جائیداد سے حصہ پائے گی۔

        مثال نمبر۲:

     زید (متوفی)

 

رضیہx                           صفیہx                           رقیہx                            حامد

ناصر

اشرف

احسن

نادرہ

 

 

        (زید متوفی کی زندگی میں مرنے والوں کے ناموں کے ساتھxکا نشان ہے)

        اس مثال میں اس جدید اجتہاد کی رو سے حامد کی تینوں مرحوم بہنوں کی اولاد اس کے ساتھ بھائی بہن بن کر حصہ پائے گی اور اس طرح حامد کو‘ جوبصورتِ دیگر کل جائیداد کا مالک ہوتا ‘اس میں سے صرف ۹/۲ حصہ ملے گا۔ حالانکہ اگر اس کی تینوں بہنیں زندہ ہوتیں جب بھی اسے۵/۲حصہ ملتا۔ یہ تقسیم کیونکر معقول ہوسکتی ہے جس میں اکلوتے بیٹے کے ہوتے ہوئے ۹/۷حصہ جائیداد دوسرے خاندان میں جارہا ہے  ----- خیال رہے کہ فقہ جعفری میں اگرچہ بیٹیوں کی اولاد کو بھی حصہ ملتا ہے اور پھوپھی اپنے یتیم بھتیجوں کو بھی محجوب کر سکتی ہے ‘لیکن موجودہ صورت مسئلہ میں ان کے نزدیک بھی تمام جائیداد حامد کی ہوگی۔

        یہ صرف دو مثالیں ہیں ۔ذرا غور کریں تو یہ درمیانی واسطے کے اٹھ جانے پر نیچے اوپر سب کو ایک ہی درجہ دے دینے پر بعض دفعہ کسی اکلوتے لڑکے کے ساتھ اس کے چچا زادوں کی اولاد بھی شامل ہوسکتی ہے۔ الغرض قانونی اور فقہی نقطہ نظر سے یہ فارمولا یا اصول کسی طرح بھی قابل عمل نہیں ہے ‘سوائے اس صورت کے کہ مرنے والے بیٹے کا صرف ایک بیٹا ہی باقی رہ گیا ہو۔

        مقامِ غور ہے کہ فقہائے متقدمین پر تو یہ الزام لگایا جاتا ہے  -----اور وہ ایک حد تک بجا بھی کہا جاسکتا ہے  -----کہ وہ اکثر مسائل کی ناممکن الوقوع اور شاذو نادر صورتوں پر بھی غور کرکے ان کے جوابات کتابوں میں لکھتے ہیں اور اس ذہنی عیاشی سے سوائے فکری انتشار کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا -----لیکن کم از کم یہ عادت کسی قائم کردہ کلیہ کے تمام ممکن اثرات سے تو آگاہ کرتی ہے  -----کیا صرف ایک مثال سامنے رکھ کر کوئی نیا قاعدہ یا اصول بنا دینا جو دو قدم بھی آگے نہ چل سکے  ----- یہ اس علمی ہیضہ سے زیادہ خطرناک نہیں ہے ؟

فصل دوم :اصول قائم مقامی پر بحث

        نئے مکتب خیال کے مفکرین کی طرف سے اس مسئلہ پر ایک اور ’’قرآنی‘‘ دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ:

’’آیۂ مبارکہ  {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ} میں اولاد سے مراد صرف بیٹے بیٹیاں ہی نہیں‘ بلکہ ان کی اولاد اور اولاد در اولاد سب اس میں شامل ہیں اور اس بات کے خود تمام مفسرین و فقہاء بھی قائل ہیں۔ تو جس طرح بحکم آیۂ مبارکہ {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھَاتُکُمْ} ماں کے علاوہ نانی‘دادی اور اوپر تک تمام مائیں بنص حرام ہیں اور جس طرح  {وَبَنَاتُکُمْ}میں بیٹی کے علاوہ پوتی نواسی اور نیچے تک تمام بچیوں کی حرمت بہ نص قرآن آجاتی ہے اسی طرح آیہ مبارکہ {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ}  سے اولاد الاولاد کا حق وراثت بنص ثابت ہے ۔اور جب فقہاء میں سے کوئی بھی   ولد الولدکالولد کا منکر نہیں ہے تو ولد (بیٹے)کی عدم موجودگی میں ولد الولد (پوتا)اس کا قائم مقام سمجھا جائے گا اور قرآن نے جو حصہ ولد کے لیے مقرر کیا ہے وہ اسے ملے گا۔‘‘ (۱۳)

        مطلق اولاد الا ولاد کا حق وراثت تو واقعی بالنص ثابت ہے۔ لیکن یہ ’’مفکرین ِقرآن ‘‘ کانیا انکشاف نہیں ہے۔اس کا جب منکر ہی کوئی نہیں تو ثابت کرنے کا کیا مطلب؟ دیکھئے جب کسی آدمی کے صرف پوتے موجود ہوں تو کوئی بھی انہیں یہ کہہ کر محروم نہیں کرتا کہ یہ تو پوتے ہیں بیٹے نہیں  ----اسی طرح  ’’ولد الولد کالولد‘‘ کا بھی کسی نے انکار نہیں کیا ‘البتہ اس میں اتنا اختلاف ضرور ہے کہ شیعہ کے نزدیک بیٹی کی اولاد بھی اولاد شمار ہوتی ہے اور اہل سنت کے نزدیک بیٹی کی اولاد گو مجازا ً اولاد ہی ہے ‘لیکن حقیقتاً وہ کسی دوسرے کی اولاد ہے ‘اس لیے وراثت میں صرف بیٹے کی اولاد‘ اولاد شمار ہوگی۔ اگرچہ بیٹوں کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیٹیوں کی اولاد بھی اپنے موقع پر وراثت کی حقدار تصور کی جاتی ہے ----لیکن یہاں جس ولد الولد (یتیم پوتے)کی بحث ہورہی ہے اس کے متعلق تو کسی کو اختلاف نہیں ہے ----اولاد الاولاد کا اولاد ہونا تو ایسی بدیہی سی بات ہے کہ اس کا انکار کرنا یا اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل پیش کرنا شاید خلل دماغ سمجھاجائے۔

        بات دراصل ولد کی عدم موجودگی میں ولد الولد کی حیثیت قائم مقامی کی ہے اور اسی پر تو یہ سب مشکل    پڑ رہی ہے‘ لہٰذا اب یہاں اسلامی قانون وراثت میں نظریہ قائم مقامی (Representation)پر بحث کرنا ضروری ہے۔

        حقیقت یہ ہے کہ ’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ‘‘میں اصل مرکزی نقطہ یہی اصول قائم مقامی ہے۔ اگر اسلامی قانون وراثت میں اس نظریہ کو جگہ دی جاسکتی ہے تو پھر مسئلہ صاف ہے ‘اور اگر اس قانون میں اصولِ نیابت کے لیے جگہ نہیں تو پھر یتیم پوتے کا حق وراثت کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا۔ مولانا جیراجپوری صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے…’’ حق یہ ہے کہ وراثت کا سارا دارومدار قائم مقامی پر ہے۔ فقہاء نے اس مسئلہ میں اسی اصل نکتہ یعنی قائم مقامی کا لحاظ نہیں رکھا جس کی وجہ سے ایسی عظیم الشان غلطی میں مبتلا ہوگئے کہ یتیم بچوں کو محجوب کرنے لگے۔‘‘ (۱۴)

        لیکن نظریہ قائم مقامی صرف زمانہ حال کا کوئی علمی انکشاف نہیں ہے ‘بلکہ یہ اصول ہر زمانے کے اسلامی فقہاء کے سامنے موجود تھا۔ لیکن سب نے ہی اسے نظر اندا ز کیا(۱۵) اور دانستہ ایسا کیا ۔اور کسی بھی مکتب خیال کے قانون دانوں (فقہاء )نے اسے بطور قاعدہ کلیہ تسلیم نہ کیا۔آخر اس کی وجہ ؟ افسوس ہے کہ اس کیوں کا جواب کہیں نہیں دیا گیا۔ حال ہی میں ایک مصری فاضل نے اپنی کتاب’’ المقارنات التشریعیۃ‘‘ میں اس پر بحث کے لیے ایک صفحہ وقف کیا ہے‘ لیکن یہ بھی نہایت تشنہ‘نامکمل اور غیر واضح بحث ہے (۱۶)۔ اس لیے مزید وضاحت ضروری ہے (۱۷ )   فنتوکل علی اللّٰہ۔

        وراثت میں قائم مقامی کے دو ہی پہلو ہوسکتے ہیں:

(۱)      نوعی قائم مقامی یعنی شخص متوفی کے وارث یا وارثوں میں سے ہر ایک کو اس کی جگہ رکھ کر اسے وہی درجہ دیا جائے جو شخص متوفی کا تھا۔

(۲)     انفرادی یا شخصی قائم مقامی یعنی شخص متوفی کا حصہ نکال کر اس کے ہونے والے وارثوں میں تقسیم کردیاجائے۔

        پہلی قسم کی قائم مقامی اسلامی قانونِ وراثت میں نہایت محدود طریقے پر ممکن العمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے چھ اصلی وارثوں (بیٹا۔بیٹی۔ماں۔ باپ۔ خاوند۔ بیوی)میں سے جو بھی ہوگا اسے تو لازماً حصہ ملے گا۔ اب ان میں سے کسی کے نہ ہونے پر اس کے قائم مقام کا سوال پیدا ہوتا ہے تو خاوند اور بیوی کا تو قائم مقام کوئی ہو نہیں سکتا۔ باپ اور ماں کا قائم مقام البتہ ایک ہی ایک شخص ہوسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں باپ کی عدم موجودگی میں دادا بحیثیت باپ کے حصہ پاتا ہے اور ماں کی عدم موجودگی میں نانی وہی ماں کا حصہ پاتی ہے  ---بیٹے بیٹی کے قائم مقام متعدد ہوسکتے ہیں ‘لہٰذا ان میں یہ قائم مقامی چل ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ اگر بیٹے بیٹی کے تمام قائم مقاموں کو اپنے سے اوپر کے درجے کے بیٹے کی طرح سمجھ لیا جائے تو جو نتیجہ نکلے گا اس سے ہم ابھی گزشتہ فصل میں بحث کر چکے ہیں ۔(۱۸)

        دوسری قسم کی قائم مقامی اسلامی احکامِ وراثت کے لیے سراسر اجنبی اور ناسازگار ہے۔ یہ قائم مقامی ان تمام نظام ہائے وراثت میں تو چل سکتی ہے جہاں اولاد کے ہوتے ہوئے باقی کسی وارث کا حق وراثت تسلیم نہ کیا جاتا ہو ‘مثلاً ہندو رواجی قانون---- یا فرانسیسی قانون (۱۹)کیونکہ اس صورت میں اولاد میں سے جو مر گیا آخر اس کا وارث صرف اس کی اولاد نے ہی ہونا تھا ‘لہٰذا وہی حصہ آگے تقسیم کر دیا جائے گا ‘لیکن اسلامی قانونِ وراثت اولاد‘ والدین اور زوجین کو بیک وقت لازماً وارث بناتا ہے (۲۰)۔ اور مقدم الذکر ہر دو جہت کے نہ ہونے پر بھائی بہن زوجین کے ساتھ حصہ پاتے ہیں۔ گویا ہر حالت میں بیک وقت متعدد قسم کے وارث حقدارِوراثت ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک قسم کو نظر انداز کرنا صریحاً قرآن کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا قائم مقامی میں بھی ان تمام قسم کے وارثوں کی قائم مقامی کا سوال درپیش آئے گا۔ اب اگر ان تمام قسم کے وارثوں کے ’’ہونے والے وارثوں‘‘کا حق قائم مقامی تسلیم کیا جائے تو گویا ان چھ قسموں میں سے ہر ایک قسم کے لیے آگے پانچ پانچ قسم کے جانشینوں کو تو حق قائم مقامی دینا ضروری ہوگا۔ اس طرح سے صرف ایک ایک واسطہ سے کسی شخص متوفی کے ممکن قائم مقام تیس قسم کے وارث ہوسکتے ہیں ‘اور پھر عین ممکن ہے کہ یہ’’ ہونے والے وارث‘‘(قائم مقام)خود مرکر اپنے اور ’’ہونے والے وارث‘‘(قائم مقام)چھوڑ چکے ہوں ۔تو اندازہ لگائیے کہ اس طرح ’’ہونے والے وارثوں‘‘ کی تعیین محالات سے نہیں ہے؟ اگر تو یہ ہونے والے وارثوں کا سلسلہ صرف ایک طرف یعنی اولاد سے ہوتا تو بات آسان تھی۔ لیکن قرآنی نظامِ وراثت میں ایک عورت اپنے خاوند سے بحیثیت بیوی کے‘اپنے بیٹے سے بحیثیت ماں کے‘اپنے باپ سے بحیثیت بیٹی کے ‘تو لازماً ہی حصہ لے گی اور بعض دفعہ بھائی سے بحیثیت بہن کے یا اور متعدد صورتوں میں کسی کی وارث بن سکتی ہے‘ اس لیے کسی مردہ کا حصہ نکال کراس کے ہونے والے وارثوں میں تقسیم کرنا اسلامی قانونِ وراثت کے لیے بالکل ناممکن العمل ہے ---اس کے علاوہ اسلامی قانونِ وراثت میں یہ بھی عین ممکن بلکہ کثیر الوقوع ہے کہ ایک مرنے والے کے قائم مقام ہونے والے وارث بھی وہی ہوں جو اس کی غیر موجودگی میں وارث ہو رہے ہیں۔ اس صورت میں بھی قائم مقامی کے اس اصول کی لغویت ظاہر ہے۔ (۲۱)

       اب اس بحث کے بعد ہم دوبارہ اس دلیل کی طرف آتے ہیں کہ چونکہ ’’اَوْلَادُکُمْ‘‘ میں اولاد الاولاد بھی شامل ہے‘ اس لیے پوتوں کو بیٹوں کاقائم مقام بنا کر حصہ کیوں نہ دیا جائے؟

        ظاہر ہے کہ اس قائم مقامی کی وہی دو صورتیں ممکن ہیں ۔یا تو سب پوتوں پوتیوں کو بیٹے بیٹیاں یعنی چچا یا چچاؤں کے بھائی بہن سمجھ کر حصہ دیا جائے ۔ اس نظریہ کی غلطی ابھی گزشتہ فصل میں ظاہر ہوچکی ہے (۲۲)۔اب رہی دوسری صورت کہ اس کے مردہ باپ کا حصہ نکال کر اس کے ہونے والے وارثوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہ ایسا نظریہ ہے کہ کوئی فہم قرآن سے بالکل عاری انسان ہی اس کا تصور کرسکتا ہے ‘اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ’’طلوعِ اسلام ‘‘نے بھی (جس کی رائے عموماً فکر قرآنی پر ہی مبنی ہوتی ہے)۔ تصریح کر دی ہے کہ ’’مردوں کے حصے نہیں نکالے جایا کرتے‘‘(۲۳)  آئیے اب اس کی قباحتوں اور پیچیدگیوں پر مزید غور کریں۔

       اول تو جب مردوں کے حصے نکالنا ہیں تو چھ اصلی وارثوں میں سے ہر ایک کا حصہ نکالنا چاہیے۔ قائم مقامی ہو تو سب کے لیے ہو یا پھر کسی کے لیے نہ ہو۔ لیکن اگر قرآنی احکام کو نظر اندا ز کر کے خواہ مخواہ یہ حق (قائم مقامی)صرف اولاد ہی کو دینا چاہتے ہیں ----تو پھر اس میں بھی صرف یتیم پوتے ہی کے باپ کی کیا خصوصیت ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی کی جس قدر اولاد اس کی زندگی میں فوت ہوئی ہے سب کے حصے نہ نکالے جائیں؟ شاید یہ کہا جائے کہ ان کا تو وارث ہی باقی کوئی نہیں جو مدعی ہو (۲۴) لیکن اگر آپ قرآن کے احکام سے واقف ہیں تو آپ ہرگز ایسا نہیں کہہ سکتے۔ کیا ان کی ماں اور ان کے بقایا بھائی بہن ان کے وارث نہیں ہیں؟ اور اگر وہ (مرنے والے)زندہ رہتے اور باپ کی وراثت سے حصہ پانے کے بعد مرتے تو کیا یہی ان کے وارث نہ ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے احکامِ وراثت کی رو سے کسی آدمی کا بالکل لاوارث ہونا محالات سے ہے(۲۵)۔اور اس کی مثالیں شاید ایک فی لاکھ بھی مشکل سے ملیں  ----اور قرآن کے احکامِ میراث اس لحاظ سے جس رحمت پر مبنی ہیں‘ اس کے تصور سے روح وجد میں آجاتی ہے۔

        آپ جب بھی کسی مرنے والے کا حصہ نکال کر اس کے وارثوں میں تقسیم کر یں گے تو آپ اس کی اولاد کے علاوہ اس کے ماں باپ‘اس کی بیوی‘اس کے خاوند میں سے کسی ایک کو بھی (موجود ہوتے ہوئے)قطعاً نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ورنہ یہ قرآنی احکام کی ایسی صریح خلاف ورزی ہوگی جس میں ہرگز کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ مردہ بیٹوں کے حصے میں ان کی بیواؤں کو اور مردہ بیٹیوں کے حصے میں ان کے خاوندوں کو آخر کس طرح وراثت سے محروم کیاجاسکتا ہے ؟ (۲۶)

        اور اگر یہ تسلیم ہے کہ قائم مقامی کا یہ اصول اسی طرح جاری کیا جائے کہ ’’مرنے والوں کا حصہ نکال کر آگے ان کے موجودہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے‘‘ ---- تو یہ سمجھ لیجیے کہ واضح قرآنی احکام ترک کیے بغیر اس پر عمل ناممکن ہوگا۔ بلکہ اس قانونی اور حسابی دلدل میں گھسنے سے جو عجیب و غریب صورت حال پیدا ہوگی اسے دیکھ کر آپ خود چلا اٹھیں گے۔اس صورت میں بعض دفعہ بیوہ بہوؤں کو صلبی بیٹے یا بیٹی کے مقابلے پر زیادہ حصہ ملے گا۔ اور بعض اوقات مردہ بیٹیوں کے خاوند اور ان کی اولاد‘زندہ صلبی بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی زیادہ لے جائیں گے اور اکثر دفعہ لاینحل قسم کی حسابی صورتیں پیدا ہوجائیں گی۔ (۲۷)

        صرف ایک مثال لیجیے۔ زید مرتا ہے اور اپنے پیچھے اپنی دو بیویاں رضیہ اور صفیہ اور ان سے کچھ اولاد اور کچھ اولاد کے وارث چھوڑتا ہے‘ جیسا نقشہ سے ظاہر ہے۔

زید (متوفی)

 

                صفیہ (بیوی نمبر۱)                                                   رضیہ  (بیوی نمبر۲)

 

        طفیل    طاہرہx   ناصرx   زاہدx            زبیرx   جمیلہ    جمیل            عقیلx

        خاوند              ماں         دو لڑکیاں            بیوہ       ایک لڑکی    دو لڑکے  بیوہ          لڑکی

        (زید متوفی کی زندگی میں مرنے والوں کے ناموں کے ساتھxکا نشان ہے)

        ذرا اس اصول قائم مقامی کی بناء پر زید کی جائیداد تقسیم کر دکھایے اور یہ کچھ ایسی نادر الوقوع مثال بھی نہیں ہے۔ (اور چلو یہ بھی فرض کر لیجیے کہ سب مرنے والے ایک ہی وقت میں مرگئے‘ کیونکہ اول تو اگر موت کی ترتیب کا بھی خیال کیا جائے تو ہر بعد میں مرنے والے کو سابق کی وراثت سے حسب قواعد حصہ ملنا چاہیے‘مگر اس طرح بات اور بھی گورکھ دھندا بن جائے گی۔ لیکن اس مفروضہ کے بعد بھی مندرجہ بالا اصول قائم مقام یعنی ’’مردہ کا حصہ اس کے وارثوں میں تقسیم کرنا‘‘کی بناء پر تقسیم ترکہ آسان کام نہیں ہے۔)(۲۸)

        خیال رہے کہ ’’قدیم‘بوسیدہ‘پیچیدہ اور دنیا کے مشکل ترین‘‘(۲۹)قانونِ وراثت کے مطابق یہ چند سیکنڈ میں حل ہوجانے والا مسئلہ ہے۔

        فقہ حنفی اور جعفری ہر دو کی رو سے صفیہ اور رضیہ ہر دو کا حصہ ہے=۸/۱‘ طفیل=۸/۷ کا ۵/۲=۲۰/۷‘ جمیل=۲۰/۷ اور ان کی بہن جمیلہ=۴۰/۷۔لیکن اصول قائم مقامی کو لیتے ہوئے پہلے تو جائیداد کا ۸/۱صفیہ اور رضیہ میں تقسیم ہوگا اور باقی ۸/۷زیدمتوفی کی کل اولاد (چھ لڑکوں اور دو لڑکیوں)میں مرد کو عورت سے دوگنا کے اصول پر تقسیم ہوگا۔ اس کے بعد طاہرہ کا حصہ اس کے خاوند ‘ماں اور لڑکیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ناصر کا حصہ اس کی ماں صفیہ اور بھائی بہنوں (طفیل‘جمیلہ اور جمیل)میں تقسیم ہوگا‘ یا شیعہ طریقہ کے مطابق صرف صفیہ ہی اس کا سارا حصہ لے گی --- اسی طرح باقی مردوں یعنی زاہد‘زبیر اور عقیل کے حصوں کا حال ہوگا۔ ایک اچھا ریاضی دان بھی جسے حصوں وغیرہ کی شرعی تقسیم بتا دی جائے تو بھی اس صورت مسئلہ کے حل اور جواب کے لیے ضرب و تقسیم کے پیچیدہ عمل سے خاصی دیر کے بعد ہی عہدہ برآ ہوسکے گا۔ اور پھر اس تقسیم میں جو نامعقولیت ہوگی وہ الگ ۔ مثال کے طور پر اس طرح تقسیم کرنے سے اسی موجودہ مثال میں صفیہ کل کا۴۸/۷ حصہ پائے گی اور زبیر کی لڑکی کو۹۶۰/۲۳ اور اس کے ہر لڑکے کو ۴۸۰/۲۳ حصہ ملے گا ۔اور پورے حسابی عمل کے لیے شایددوصفحے بھی کافی نہ ہوسکیں۔

فصل سوم: متجددین کے بقایا دلائل

        یتیم پوتے کا حق وراثت اس کا حق قائم مقامی تسلیم کرنے پر منحصر ہے۔ اور قائم مقامی کی دو ممکن صورتوں پر مبنی دونوں نئی دلیلوں سے ہم گزشتہ دو فصلوں میں پوری بحث کر چکے ہیں۔ نئے نقطہ نظر کے حامی حضرات کے باقی تمام دلائل یا اعتراضات دراصل انہی دو گزشتہ دلیلوں کی ذیل میں آجاتے ہیں۔ اس لیے ان سب کا بیان اس ایک فصل میں کیا جاتا ہے۔

(۱) چچا کی موجودگی میں یتیم بھتیجے (پوتے)کے محجوب الارث نہ ہونے پر جدید خیال حضرات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب فقہاء باپ کی عدم موجودگی میں دادا کو باپ کا قائم مقام بنا کر حصہ دلاتے ہیں تو اسی قاعدے کی رو سے یتیم پوتے کو اس کے باپ کا قائم مقام بنا کر کیوں وارث نہیں بنایا جاسکتا؟

        غالباً یہی بظاہر سب سے بڑی منصفانہ اور معقول دلیل ہے جس کا اس مسئلے کے سلسلے میں سب سے زیادہ اعادہ کیا گیا ہے ۔خواجہ احمد الدین مرحوم‘مولانا جیر اجپوری صاحب اور طلوعِ اسلام نے بھی جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے۔ (بلکہ غالباً اقرب کی نئی تعریف کا محرک بھی یہی دلیل ہے)----اور دسمبر ۱۹۵۳ء کے بعد سے جب یہ مسئلہ اخبارات میں موضوعِ بحث بنا تو پبلک کے خطوط میں بھی اسی کو بار بار دہرایاجاتا رہا ہے اور شاید اسی دلیل نے بعض حضرات کو وراثت کے کچھ نئے فقہی اصول مرتب کرنے پر بھی آمادہ کیا جن کا ذکر ابھی اس کے بعد کیا جائے گا۔

        قائم مقامی کے اصول پر مفصل بحث کے بعد ان مغالطوں کا تجزیہ دشوار نہیں ہے جو یہ دلیل اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے۔ بات واضح ہے کہ اصول قائم مقامی اصول و فروع میں یکساں نہیں چل سکتا۔ ایک شخص کے باپ یا دادے متعدد نہیں ہوسکتے۔ باپ کے مرنے پر دادا باپ کے درجہ پر رکھا جائے گا اور اسے وہی حصہ ملے گا جو باپ لیتا ‘لیکن یتیم پوتے متعدد ہوسکتے ہیں ۔اور اگر اسی اصول پر ہر ایک پوتے کو بیٹا بنا دیا جائے تو جو نتیجہ ہوگا اس سے ہم پہلے بحث کر ہی چکے ہیں۔ (۳۱)

(۲)     اس سلسلے میں مفکرین تجدد کی طرف سے وراثت کا ایک نیا اصول یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ دو افراد میں سے زندہ پہلے مرنے والے کا وارث ہوگا یا دونوں ہی کسی حالت میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے (۳۲)۔ یعنی وراثت صرف دو ایسے شخصوں میں جاری ہوسکتی ہے جن میں سے اگر ایک فوت ہوجائے تو دوسرا اس کا وارث بنے گا۔ مثلاً باپ اور بیٹا‘بیوی اور خاوند وغیرہ کہ ایک کے مرنے پر دوسرا اس کا وارث ہوتا ہے۔ اور جہاں ایسی بالمقابل وراثت کی صورت نہ ہو وہاں وراثت جاری نہیں ہوگی ‘مثلاً ماموں بھانجا وغیرہ کہ ایک کے مرنے پر دوسرا اس کا وارث نہیں بن سکتا ---پس دادا و پوتے میں بھی صرف ایک طرف سے وراثت جاری کرنا غلط ہے۔ یا تودونوں طرف سے بند کیجیے یا دونوں طرف احکامِ وراثت جاری ہوں۔ یہ کیا مطلب کہ دادا تو پوتے کا وارث لیکن پوتا دادے کی وارثت سے محروم؟

        دادا پوتے کی بالمقابل وراثت پر ہم پہلے لکھ چکے ہیں ‘البتہ یہاں یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ فاضل مفکر کو قرآن سے اصل اصولِ وراثت سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ قرآن کا یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ وراثت صرف وہیں ہوگی جہاں دونوں طرف سے وارث بن سکنے کی اہلیت موجود ہو ---دیکھئے ایک بے اولاد بھائی کے مرنے پر دوسرا بھائی (جو صاحب ِاولاد بھی ہے)اس کا وارث بن سکتا ہے ‘لیکن اسی صاحب ِاولاد بھائی کے مرنے پر وہ بے اولاد بھائی اس کا وارث نہیں ہوسکتا ‘بلکہ اس کی اپنی اولاد وارث ہوگی۔

(۳)    چچا کے اپنے یتیم بھتیجے کو محجوب نہ کرسکنے کے حق میں ایک نئی دلیل یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ ’’پوتے کا تعلق دادا سے اپنے باپ کے ذریعے سے ہوتا ہے نہ کہ چچا کے ذریعے سے ‘اور جب چچا کی موت اسے مورث بنانے کا سبب نہیں ہے تو اس کی موجودگی ‘بھتیجے کی محرومیت کا سبب بھی نہیں بن سکتی (۳۳)۔ یتیم بھتیجا اپنے چچا کا بیٹا نہیں بن جاتا کہ اس وجہ سے محروم کیا جائے ‘ورنہ پھر اس پر اپنے چچا کی بیٹیاں بھی (بہنیں ہوکر)حرام ہوجانی چاہئیں‘ حالانکہ اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں ہے ‘تو پھر چچا اسے کس طرح وراثت سے روک سکتا ہے؟

        یہ خلط مبحث ہے۔ چچا کے اپنے بیٹے اس کی زندگی کی وجہ سے محجوب ہیں اور یتیم بھتیجا اپنے باپ کے قائم مقام نہ بنائے جاسکنے کے باعث ۔ورنہ یہ تو کوئی نہیں کہتا کہ وہ اپنے چچا کا بیٹا بن جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ’’نئی دلیل‘‘ ایک مناظرانہ مغالطہ سے زیادہ نہیں ہے۔

(۴)سب سے بڑی اور عامیانہ دلیل جدید ’’مفکرین ‘‘حضرات اور معترضین کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ ’’یہ جذبہ رحم و شفقت کے منافی ہے کہ بے آسرا یتیم کو اس جائیداد سے بھی محروم کر دیا جائے جو اس کے باپ کے زندہ رہنے کی صورت میں اسے ضرور ملتی۔‘‘ (اس جذبہ رحم کی حقیقت کے لیے ایک دفعہ دیکھ لیجیے اسی حصہ دوم میں باب اول میں پس منظر)اگرچہ اسلامی قانونِ وراثت کی چند اصطلاحی (technical)پیچیدگیوں کی وجہ سے یتیم پوتا اپنے چچاکی موجودگی میں وراثت سے حصہ نہیں پا سکتا۔ (۳۴) لیکن قرآن نے یہ کب کہا ہے کہ ’’اے دادو! خبردار اپنے یتیم پوتوں کو کچھ نہ دینا‘‘۔ قرآن کریم تو اجازت بلکہ حکم دیتا ہے (جیسا کہ ہم اگلے باب میں بیان کریں گے)کہ ایسی صورتوں میں تمہیں اس کے ممکن حصے سے بھی زیادہ دے دینے کا اختیار ہے ‘مثلاً دیکھئے اگر کسی آدمی کا ایک بیٹا کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یا امیر کبیر ہو اور ایک خوردسال یتیم پوتا ہو اور وہ آدمی اپنی جائیداد کا بیشتر حصہ اس پوتے کو بطورِ ہبہ دے دے تو اسلام کی نظر میں یہ فعل ناروا نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ چاہے وہ جائیداد دادا کی خود مکسوبہ ہو یا موروثی  ----حالانکہ ہمارے موجودہ قانون کی رو سے موروثی جائیداد میں دادا کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

        اس بارے میں اصل قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قرآنی قانونِ وراثت جن اجتماعی مصالح و حکم (مثلاً اصولِ دورانِ دولت وغیرہ)پر مبنی ہے‘ ان کو ایک انفرادی مصلحت پر قربان کرکے سارے قانون کے ڈھانچے کو بگاڑ دینا ظلم اور نادانی کی انتہا ہوگی ‘خصوصاً جب کہ ایسی انفرادی مصلحتوں کے لیے قرآن خود گنجائش ہی نہیں پیدا کرتا بلکہ ان کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یتامیٰ کے بارے میں خاص حالات میں خاص خاص قسم کے مصالح اور مراعات کی حفاظت مطلوب ہوتی ہے جنہیں پورا کرنے سے قانون کی کلیت اکثر قاصر رہتی ہے۔ ان انفرادی مصالح و مراعات کے تحفظ کے لیے قرآن نے کیا احکام دیے ہیں‘ ان سے اگلے باب میں بحث ہوگی۔

                                                                                        (جاری ہے)

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      یہ دلائل اور اعتراضات مختلف طریقوں سے جمع کیے گئے ہیں۔ کچھ تو اس موضوع پر دستیاب لٹریچر سے جس کا ذکر گزشتہ باب میں ہوچکا ہے‘ کچھ اخبارات میں اس موضوع پر شائع ہونے والے خطوط سے اور کچھ پرائیویٹ بحث و مباحثہ کے دوران سنے گئے۔

(۲)     تین اہم مسائل ‘ص ۱۸۹

(۳)    الورا ثۃ فی القرآن‘ ص۳۸تا۴۰‘ ص ۱۲۴۔۱۲۵ ‘نیز ص۱۳۵

(۴)     دیکھئے مقالہ ہذا پہلا حصہ‘ باب اول: قرآن کے احکامِ وراثت‘ جزو (ہ) اورباب دوم کے حواشی اور حوالہ جات

(۵)     تین اہم مسائل ‘ص۱۹۱

(۶)     یعنی مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نزدیک

(۷)    اسے مسئلہ عمریہ اور حجریہ بھی کہتے ہیں اور ان خاص پیچیدہ مسائل میں سے ہے جو ’’الملقبات ‘‘کے نام سے کتب فرائض میں بطورِ خاص ذکر کیے جاتے ہیں۔

(۸)     صورتِ مسئلہ اور کیفیت اختلاف کے لیے دیکھئے ‘المواریث الاسلامیہ ‘ص ۴۴

(۹)     احکام المواریث ص۱۵۴(مولانا جیرا جپوری صاحب کی تعریف ’’اقرب‘‘ مقالہ ہذا کے دوسرے حصہ میں باب دوم‘ فصل اول میں پھر ایک دفعہ دیکھ لیجیے۔)

(۱۰)    احکام القران للجصاص ‘ج۲‘ ص ۵۰

(۱۱)     تین اہم مسائل ‘ص ۱۸۵

(۱۲)    تین اہم مسائل‘ص ۱۵۶۔۱۵۷

(۱۳)    خواجہ احمد الدین مرحوم نے ’’الوراثۃ فی القرآن‘‘ میں متعدد جگہوں پر مختلف طریقوں سے اسی بات کو بیان کیا  ہے  ---یہ الفاظ (اقتباس)خواجہ صاحب مرحوم کے فرزند ڈاکٹر خواجہ سخاء اللہ صاحب کے خط سے لیے گئے ہیں‘ جو انہوں نے میرے ایک استفسار کے جواب میں لکھا تھا۔

(۱۴)    تین اہم مسائل‘ ص۱۹۰

(۱۵)    نیز دیکھئے آنریبل جسٹس بدیع الزمان کیکائوس کی رائے۔ پنجاب مقننہ کی شائع کردہ پبلک آراء ‘ص۱

(۱۶)    المقارنات التشریعیۃ‘ ج۴‘ ص۵۷

(۱۷)    تعجب ہے کہ ۱۸۔۱۹۱۷ء میں جب اس مسئلہ پر بحث چھڑی تو قدیم نظریہ کے حامی علماء میں سے بھی کسی نے نظریہ قائم مقامی کی وجوہ ردّوقبول پر کبھی بحث نہیں کی ‘حالانکہ اصل نکتہ یہی تھا ‘بلکہ اس زمانے کے ’’مناظرانہ اثرات‘‘ کے ماتحت بعض عجیب و غریب دلائل پیش کیے جاتے تھے جنہیں آج پڑھ کر آدمی ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دیکھئے اخبار اہلحدیث۱۸مئی ۱۹۱۷ء اور ۲۹نومبر۱۹۱۸ء اور مولوی غلام مصطفی صاحب کا اشتہار نمبر۲ ---البتہ حال ہی میں سید غلام احمد بی اے پلیڈر منٹگمری نے اپنے رسالہ ’’یتیم پوتے کا حق وراثت ‘‘کے صفحہ۱۳تا۱۵پر اس اصول سے نہایت عمدہ بحث کی ہے۔

(۱۸)    مقالہ ہذا کے دوسرے حصہ میں باب دوم‘ فصل اول‘ مثال نمبر۱‘۲

(۱۹)     المقارنات التشریعیۃ‘ ج۴‘ ص۵

(۲۰)    دیکھئے مقالہ ہذا کے پہلے حصے میں باب اوّل کا آخری صفحہ۔

(۲۱)    قاضی یحییٰ بن اکثم کو منصب قضاء کے چند امیدواروں کے ساتھ خلیفہ المامون کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش کیا گیا۔ شخصیت کچھ اچھی نہ تھی ۔خلیفہ نے کوئی معمولی عالم سمجھ کر امتحاناً سوال کیا کہ ’’ایک میت نے اپنے پیچھے ماں‘باپ اور دو بیٹیاں چھوڑیں ‘پھر ان دو بیٹیوں میں سے ایک مرگئی اور وارث وہی ہیں جو پہلے میت کے تھے۔ بتاؤ وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ قاضی یحییٰ نے عرض کیا:’’ امیر المؤمنین!مجھے اتنا بتا دیجیے کہ میت اول مرد تھا یا عورت؟‘‘خلیفہ قاضی کی لیاقت کو سمجھ گیا اور اسے قاضی مقرر کیا۔اس مسئلہ کی پوری صورت دیکھنے کے لیے فتاویٰ عالمگیری ‘جلد دہم‘ کتاب الفرائض ‘ص ۴۷۸۔۴۷۹دیکھئے۔

(۲۲)    مقالہ ہذا کے دوسرے حصہ میں باب دوم‘ فصل اول‘ مثال نمبر۱‘۲

(۲۳)  تین اہم مسائل ‘ص ۱۵۶۔۱۵۷  نیز الوراثۃ فی القرآن‘ص۱۳۵۔۱۳۶

(۲۴)  الوراثۃ فی القرآن ‘ص۵۷

(۲۵)    دیکھئے مقالہ ہذا کے پہلے حصے میں باب چہارم : وارثوں کے طبقات‘ ترتیب طبقات ورثاء ‘حاشیہ ۱۰

(۲۶)  غالباً اسی لیے فقہ حنفی میں صرف پوتوں کے وارث ہونے کی صورت میں ان سب کو دادا کے بیٹے بیٹیاں بنا کر ورثہ علی الرئوس تقسیم کیا جاتا ہے (اور حضرت زید بن ثابتؓ کا فتویٰ بھی اسی کی تائید میں ہے۔ دیکھئے مقالہ ہذا کے پہلے حصہ میں باب پنجم کا پہلا صفحہ)ورنہ اگر مردوں کا حصہ نکالا جائے ‘یعنی تقسیم علی النسب ہو ‘جس طرح فقہ جعفری میں ہے ‘تو پھر بیوہ بہوؤں کو بھی ان کا حصہ ملنا چاہیے۔ لیکن عجب بات ہے کہ گو ایسی صورت میں شیعہ ورثہ علی النسب تقسیم کرتے ہیں لیکن بیوہ بہوؤں کو کچھ نہیں دیا جاتا ۔اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔

(۲۷) اس قسم کی قائم مقامی سے جس قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے رسالہ ترجمان القرآن بابت جنوری فروری ۱۹۵۴ء صفحات ۳۲۵تا۳۴۰‘نیز پنجاب مقننہ کی جمع کردہ پبلک آراء میں سینئر سول جج مظفر گڑھ کی رائے۔ ضمیمہ آراء(supplement۳ تا ۷۔

(۲۸)   ہم نے اس حل اور تقسیم کی پوری عملی تفصیل کو عمداً بخوفِ طوالت ترک کر دیا ہے ‘لیکن اس ضمن میں رسالہ ترجمان القرآن فروری۱۹۵۴ء کے ص ۳۲۵ تا ۳۴۰اور سینئر سول جج مظفر گڑھ کی رائے جس کا اوپر (حاشیہ نمبر ۲۷میں)حوالہ دیا گیا ہے‘ کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

(۲۹)    یہ الفاظ کتاب ’’تین اہم مسائل‘‘ میں صفحہ ۱۴۳پر موجودہ اسلامی قانون وراثت کے حق میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کا مقابلہ اسی قانون وراثت کے متعلق سرولیم جونزWilliam Jones))کے تبصرہ سے کیجیے (دیکھئے مقالہ ہذا‘ مقدمہ میں سر ولیم جونز کا اقتباس)

(۳۰) تین اہم مسائل ‘ ص ۱۶۴‘ص ۱۸۵ وص ۱۸۹‘۱۹۰۔ نیز  الوراثۃ فی القرآن ‘ ص ۶۰۔

(۳۱)    مقالہ ہذاکے دوسرے حصے میں باب دوم‘ فصل اول‘ مثال نمبر۱‘۲

(۳۲۔۳۳) ۹ جنوری ۱۹۵۴ء کو وائی ایم سی اے لاہور میں مسئلہ زیر بحث پر ایک مذاکرہ کے دوران یہ دو نئی دلیلیں (یعنی ۲ اور۳مندرجہ بالا)اس تفصیل سے سنی گئیں جس طرح یہاں بیان کی گئی ہیں۔ نیز دیکھئے اخبار ملت ۱۱جنوری‘ ۱۹۵۴ء (صفحہ۱۱کالم ۵‘صفحہ۳کالم۴)میں مضمون ڈاکٹر خواجہ سخاء اللہ صاحب جس میں انہی دلائل کو مختصراً بیان کیا گیا ہے۔

(۳۴) اور قانون میں ایسی پیچیدگیاں عام ہوتی ہیں کہ ایک چیز ایک نام سے نہیں ملتی لیکن وہی چیز دوسرے نام سے حاصل ہوجاتی ہے ۔’’ وراثت‘‘ کے نام پر کچھ نہ ملنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ’’کچھ ملے گا ہی نہیں‘‘۔ دیکھئے موجودہ پریس ایکٹ کی رو سے جب کوئی اخبار بند کر دیا جاتا ہے تو دوسرے ہی دن وہی اخبار اسی ایڈیٹر‘ اسی پریس‘ اسی عملہ ‘اسی پالیسی کے ساتھ جاری ہوجاتا ہے ‘ صرف ’’نام‘‘ بدلنا پڑتا ہے اور خریدار بھی اسے سابق اخبار سمجھ کر پڑھتے ہیں۔

===

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

ایک علمی اور فقہی جائزہ (۴)

 

مقالہ نگار: پروفیسر حافظ احمد یارؒ

باب سوم

قرآن اور تحفظ ِمصالح یتامیٰ

        سورۃ النساء کے دوسرے رکوع میں احکامِ میراث بیان کیے گئے ہیں اور پہلا رکوع تمام تریتامی ٰکی پرورش و نگہداشت‘ان کی کفالت و حفاظت کے طریقوں‘ان سے حسن سلوک اور ان کے بارے میں خوفِ خدا کی تعلیم و تاکید پر مشتمل ہے۔ یتامی کے بارے میں احکام بیان کرتے کرتے وراثت کے بنیادی اصولوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:

{ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ   ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ   ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا    Ċ} (النساء)

’’ماں باپ اور قریبی رشتہ دارو ں کے ترکہ میں ‘تھوڑا ہو یا بہت‘ مردوں کا حصہ ہے ‘اور (ایسا ہی)ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں عورتوں کا بھی حصہ ہے ‘(اور یہ)حصہ (ہمارا اپنا)ٹھہرایا ہوا (ہے)۔‘‘

        پھر ان مجمل اصولوں کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے دوبارہ تین آیات میں یتامی کی طرف بالخصوص توجہ دلائی گئی ہے اور ان میں سے آخری دو آیات تو خصوصاً اپنی قوتِ تاثیر اور اندازِ تعبیر وانذار کے لحاظ سے ایسی ہیں کہ ناممکن ہے کہ بے حس سے بے حس آدمی بھی انہیں پڑھ کر یتامی کے بارے میں چونک نہ اٹھے:

{ وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّيَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَيْھِمْ  ۠ فَلْيَتَّقُوا اللّٰهَ وَلْيَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا     اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا  ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا      ۧ}  (النساء)

’’اور ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ بھی اپنے پیچھے (ایسی ہی)کمزور اور ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو انہیں ان کے متعلق (کیسا)فکر ہوتا۔ پس چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور معقول بات کریں۔ یقینا وہ لوگ جو ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں‘ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں ‘اور جلد دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘

٭      آیاتِ میراث سے قبل یتامی کے متعلق یہ آیات کیا اس طرف رہنمائی نہیں کرتیں کہ احکامِ میراث کو یتامی کے معاملے سے کچھ خاص تعلق ہے ؟ کیا قانونِ میراث کی تمہید میں یتامی کے متعلق ایسی واضح ہدایات اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتیں کہ اگر قانون کی کچھ اصطلاحی پیچیدگیاں یتامی کے بارے میں مشکلات پیدا کردیں تو تم محض قانون پر (اور اس کی کلیت پر)مطمئن ہو کر نہ بیٹھ جانا۔ یتامی کی مصلحتوں کا تحفظ بہرحال تم پر لازمی ہوگا۔ قرآن کس قدر دردناک الفاظ میں یتامی کی طرف توجہ کے لیے ترغیب دلاتا ہے اور کن خوفناک الفاظ کے ساتھ ان کے حقوق سے غفلت برتنے والوں کو ڈراتا ہے۔

٭      اس کے بعد مزید تدبر کیجیے۔ آیاتِ میراث میں ہر حکم کے بعد وصیت اور قرض کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرض کی وجہ تو فوراً سمجھ میں آجاتی ہے ‘لیکن وصیت کو اس پر بھی ہر دفعہ مقدم کیوں کیا گیا ہے؟ کیا یہ وارثوں کی تنبیہ کے لیے نہیں ہے کہ کہیں وصیت کو قرض سے معمولی نہ سمجھ لینا۔یہ حقیقت ہے کہ وارثوں پر قرضِ میت ادا کرنا چنداں گراں نہیں گزرتا ‘جتنا وصیت کا نفاذ شاق گزرتا ہے‘ کیونکہ اس میں ایک چیز بغیر کسی عوض کے ہاتھ سے جارہی ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمادی کہ دیکھو بلحاظ سرعت و وجوابِ اداء کے وصیت بھی قرض کے مانند ہے ‘اور جس کے لیے مالِ میراث میں وصیت ہے وہ وارث سے بھی مقدم حقدار ہے۔

٭      آیاتِ میراث میں نفاذِ وصیت کی بار بار تاکید سے خود بخود ذہن میں آتا ہے کہ میراث اور وصیت کا گہرا تعلق ہے ‘بلکہ سورۃ النساء کے ابتدائی دو رکوع بار بار پڑھ کر ذرا تدبر کریں تو دماغ میں فقط چار الفاظ گھومنے لگتے ہیں: یتامی‘میراث‘وصیت اور قرض ۔ کیا یہ آیات پکار پکار کر نہیں کہہ رہیں کہ اسلامی قانونِ میراث اور قانونِ وصیت بیک وقت نافذ ہونے چاہئیں؟ کیا یہ قرآن حکیم سے مذاق نہیں ہے کہ اس کے دو واجب العمل اور لازم وملزوم حکموں میں سے صرف ایک کو نافذ کیاجائے اور دوسرے کو ترک کیا جائے؟ ذرا غور و فکر سے کام لیں تو آپ پر عیاں ہوجائے گا کہ اسلامی قانونِ وراثت اور قانونِ وصیت ہر دو صحیح نتائج پیدا کرنے میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ایک کا کام اجتماعی مصالح کی نگہداشت ہے تو دوسرا اس اجتماعیت اور عمومیت (general principles) کے اندر انفرادی اور شخصی مصالح (particular cases) کو نظر انداز ہونے سے روکتا ہے --- وارث کے لیے بغیر رضامندی دیگر ورثاء اور بغیر معقول وجوہ کے وصیت کرکے اس کو قانونی حق سے زیادہ دینا منع ہے‘ اور غیروارث رشتہ دار کو محض قانون کی عمومیت کے رحم پر چھوڑنے کی بجائے اس کے لیے وصیت کرنا ضروری ہے۔ ان دونوں قوانین کے ساتھ ساتھ چلنے میں جو ہم آہنگی اور موزونیت ہے وہ ایک کے ساقط کر دینے سے کہاں برقرار رہ سکتی ہے۔

        آیاتِ میراث میں تو وصیت کے اجراء و نفاذ پر زور دیا گیا ہے ۔ اب وصیت کرنے کے متعلق قرآن حکیم کا حکم ملاحظہ کیجیے:

{ كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا  ښ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ  ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ    ١٨٠ۭ}  (البقرۃ)

’’(مسلمانو!)تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کا اخیر وقت آجائے اور وہ بطورِ ترکہ کچھ مال و دولت چھوڑ رہا ہو تو والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں منصفانہ وصیت کر جائے۔ متقی لوگوں کو ایسی وصیت کرنا ضروری ہے۔‘‘

        کس قدر واضح حکم ہے ‘لیکن افسوس ہے کہ بعض علماء آیاتِ میراث اور حدیث ((لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ))(۱) کی بنا پر اس حکم کی منسوخی کے قائل ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے‘ حالانکہ آیاتِ میراث اور حدیث زیادہ سے زیادہ صرف اس کے کچھ حصہ کی تخصیص کرتی ہیں‘ کیونکہ نہ تو تمام اقرباء ہمیشہ وارث ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں (مثلاً بحالت کفر)والدین بھی وارث نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

وقیل : ان الآیۃ مخصوصۃ لان الاقربین اعم من ان یکونوا وارثاً، وکانت الوصیۃ واجبۃ لجمیعھم فخص منھا من لیس بوارث بآیۃ الفرائض و بالحدیث لا وصیۃ لوارث (۲)

’’اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت (منسوخ نہیں بلکہ)مخصوص ہے ‘کیونکہ اقرباء کا لفظ ورثاء سے زیادہ عام ہے ۔اور (پہلے تو)ان سب اقرباء کے لیے وصیت واجب تھی‘ لیکن آیت میراث اور حدیث لا وصیۃ لوارث سے (وجوبِ وصیت کے لیے)غیرورثاء مخصوص کر دیے گئے۔‘‘

        دراصل قائلین نسخ کی نظریں وصیت کی حکمتوں اور مصلحتوں کو نہ پاسکیں (۳)اسی لیے علماء کے ایک گروہ نے نہ صرف اس آیت کے متعلق نظریہ نسخ کا بطلان کیا بلکہ ہمیشہ وصیت کے واجب اور لازمی ہونے پر زور دیا۔(۴)

        علامہ ابن حزمؒ اندلسی لکھتے ہیں۔

وفرض علی کل مسلم ان یوصی لقرابۃ الذین لا یرثون اما لرق واما لکفر واما لان ھنالک من یحجبھم من المیراث او لانھم لایرثون، فیوصی لھم بما طابت بہ نفسہ لا حد فی ذلک …… فان اوصی لثلاثۃ من اقاربہ المذکورین اجزأہ (۵)

’’ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے ان رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے جو (کسی مانع شرعی مثلاً)غلامی یا کفر کی وجہ سے وراثت نہ پاسکتے ہوں‘ یا جوکسی دوسرے وارث کی وجہ سے محجوب ہو رہے ہوں یا (کسی اور باعث سے)وارث نہ بن سکتے ہوں۔ پس ایسے لوگوں کے لیے وہ وصیت کرے جس قدر اس کا جی چاہے‘ اس میں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور اگر کم از کم تین ایسے رشتہ داروں کے لیے وصیت کردے تو اس نے فرض ادا کردیا۔‘‘

        علامہ موصوف نے کبارتابعین میں سے ان بزرگوں کے نام دیے ہیں جو غیر وارث اقرباء کے لیے وصیت کرنا واجب قرار دیتے تھے۔ چند ایک نام یہ ہیں: عبداللہ بن طاؤس ‘قتادہ‘ سعید بن المسیب‘ مسروق ‘سالم بن یسار ‘ علاء بن زیاد‘عبدالملک بن یعلی اور ایاس بن معاویہ وغیرہ۔اور جو لوگ وجوبِ وصیت کے قائل نہیں ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے آخر پر لکھتے ہیں:

ان ھذا لمن قبیح التدلیس فی الدین و لیت شعری ای شیء فی ھذا ما یبیح ان لایوصی لقرابتہ (۶)

’’یہ بات (کہ وصیت کرنا واجب نہیں)تدلیس فی الدین (یعنی دین کے بارے میں دھوکہ بازی کرنے)کی بدترین مثال ہے۔ کاش کوئی مجھے بتا سکتا کہ آخر اس بارے میں (ان کے پاس) کون سی ایسی شے (دلیل)ہے جس سے رشتہ داروں کے لیے وصیت نہ کرنا جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟‘‘

پھر آگے چل کر آیت وصیت کے متعلق نسخ کے قائلین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

… فقد قال الباطل وقفا مالا علم لہ بہ، وقال علی اللّٰہ تعالٰی ما لا یعلم، وترک الیقین وحکم بالظنون، وھذا محرم بنص القرآن (۷)

’’… تو (جو اس آیت کے نسخ کا قائل ہوا)اس نے جھوٹ کہااور ایک ایسی بات پر اڑا جس کے متعلق وہ بالکل بے خبر ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کہہ دی جس کا اسے کچھ علم نہیں‘ اوراس نے یقین کو چھوڑا اور گمان و ظن کی بنا پر (ایک)فیصلہ کر لیا ‘ حالانکہ ایسا کرنا نص قرآن کی رو سے قطعاً حرام ہے۔‘‘

        اگرچہ آیت وصیت کے الفاظ ’’کُتِبَ عَلَیْکُمْ‘‘ اور ’’حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ‘خود ہی اپنے مفہوم (ایجابِ وصیت) کی دلالت پر برہانِ قاطع ہیں‘ لیکن سنت سے اس کی مزید تاکید ثابت ہوتی ہے۔ شیخینؒ نے بطریق نافع عن ابن عمرi مندرجہ ذیل حدیث کی تخریج کی ہے:

((مَا حَقُّ امْرِیٍٔ مُسْلِمٍ لَہٗ شَیْئٌ یُرِیْدُ اَنْ یُوْصِیَ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ اِلاَّ وَوَصِیَّتُہٗ مَکْتُوْبَۃٌ عِنْدَہٗ))(۸)

’’کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی شے (مال وغیرہ)قابل وصیت ہو اور (پھر بھی) دو راتیں اس پر بغیر تحریری وصیت پاس ہونے کے گزر جائیں۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمرi جو اس حدیث کے راوی ٔاول ہیں ‘فرمایا کرتے تھے:

مَا مَرَّتْ عَلَیَّ لَیْلَۃٌ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ ذٰلِکَ اِلاَّ وَعِنْدِیْ وَصِیَّتِیْ (۹)

’’جب سے میں نے حضور کو یہ فرماتے سنا‘کوئی رات مجھ پر ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس اپنی وصیت موجود نہ رہی ہو۔‘‘

اسی طرح حضرت طلحہ اور زبیرi وصیت کے متعلق بہت سختی کیا کرتے تھے ۔(۱۰)

        ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وجوبِ وصیت کے قائلین کا مسلک کس قدر اقرب الی القرآن اور قرین صواب ہے۔

        پھر اس کے ساتھ ہی اگر آپ یتامی کے متعلق قرآن حکیم کے احکام پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ قرآن میں بہت کم مقام ایسے ہیں جہاں گناہ اور برائی کے بیان میں یتامی پر سختی یا ان سے غفلت‘ان کی حق تلفی‘ان کی دل شکنی‘ان سے سخت کلامی اور ان پر ظلم وغیرہ کا ذکر موجود نہ ہو ‘اور اسی طرح بہت کم مقام ایسے ہیں جہاں نیکی اور بھلائی کے بیان میں یتامی کی امداد و پرورش‘ان کی تربیت‘ان کی حفاظت و کفالت ‘ان کے معاملات میں دیانت و تقویٰ ‘ان کے احوال و حقوق کی نگہداشت اور ان سے ہمدردی و غم خواری وغیرہ کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔

        یتامی کے متعلق قرآن کے ان تمام مجموعی احکام کو (جن سے کوئی معمولی قرآن دان بھی ناواقف نہیں ہے اور جن کی تفصیل یہاں غیر ضروری تطویل کا باعث ہوگی)(۱۱)ان آیاتِ میراث و وصیت کے ساتھ ملا کر تدبر کیجیے تو کم از کم یتامی اور پھر خصوصاً محجوب الارث یتامی کے بارے میں تو وجوبِ وصیت پر آپ کو شرحِ صدر حاصل ہوجائے گا۔

        الغرض قانونِ وراثت ایک عمومی و کلی قانون ہے جس کا مقصد عمومی و اجتماعی مصلحتوں کی نگہداشت ہے۔ ایسے کلی قانون میں شخصی و انفرادی مصالح کی مراعات ناممکن ہوتی ہے۔ (اور یہ قوانین کلیہ کے مزاج کا خاصہ ہے‘ چاہے وہ وضعی ہوں یا الہامی)لیکن یہ قرآن کی حکیمانہ بصیرت کا اعجاز ہے کہ وہ انفرادی اور شخصی مصالح کو بھی اجتماعی و عمومی مصالح کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیتا۔ چنانچہ قرآن کا قانونِ وصیت اس کے قانونِ وراثت کے تتمہ کی حیثیت رکھتا ہے ‘ جس کے ذریعے سے نہ صرف محجوب الارث اقرباء (جن میں سے ایک یتیم پوتا بھی ہے)بلکہ اولاد خنثی مشکل‘مفقود الخبراشخاص‘غیر مسلم والدین اور بہت سے دوسرے ایسے اشخاص کی انفرادی مصلحتوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے جو اگرچہ وراثت کے کلی قانون کی رو سے نقصان اٹھا سکتے ہیں ‘لیکن جن کی خبر گیری اور ادائیگی ٔحقوق بہرحال واجب ہے۔

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      خیال رہے کہ یہ حدیث روایتاً درایتاً کسی طرح اعتراضات سے خالی نہیں ہے۔ (ا) حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :’’یہ حدیث مرفوع تو ہے لیکن شرط بخاری پر ثابت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ نے اس عنوان (لاوصیۃ لوارث)سے ایک باب تو باندھا‘ لیکن اس میں حدیث کی بجائے ابن عباسi کا ایک قول نقل کیا ہے‘ جو معناً عنوانِ باب کی تائید کرتا ہے (بخاری ‘ج۲‘ص۱۸۷)۔ابوداؤد‘ ترمذی‘ نسائی‘ابن ماجہ‘ دار قطنی اور احمدؒنے اسے مختلف اسناد سے روایت کیا ہے ‘ لیکن ان اسناد میں سے کوئی بھی اعتراض سے خالی نہیں۔ مسلم نے اس حدیث کی تخریج ہی نہیں کی اور موطا مالک میں بھی یہ حدیث موجود نہیں (اگرچہ اس مضمون کا فتویٰ موجود ہے)۔گو مجموعی طور پر یہ روایات حدیث کی اصل کو مضبوط کرتی ہیں‘ بلکہ امام شافعی ؒنے تو ’’الاُمّ‘‘میں اسے متن متواتر تک کہہ دیا ہے۔‘‘ (ملخّصاز حاشیہ بلوغ المرام ‘ص۱۹۹)

(ب)    فیض الباری شرح بخاری میں صاف لکھا ہے کہ یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے (فیض الباری ‘ج۳‘ ص ۴۰۹)اس کے بعد ابن القطان کی اس بحث کا ذکر کیا ہے کہ حدیث ضعیف پر جب امت عملاً اجماع کرلے تو کیا وہ صحیح کا درجہ حاصل کر لیتی ہے یا نہیں؟ (صاحب فیض الباری اپنا رجحان اس گروہ کی طرف بتلاتے ہیں جو اس سوال کا جواب اثبات میں دیتا ہے۔(

        الغرض بلحاظِ اسنادِ روایت یہ حدیث ہرگزاس درجہ کو نہیں پہنچتی کہ اس سے آیت قرآنی کو منسوخ تو کجا مخصوص یا مقید بھی کیا جاسکے اور صاحب فیض الباری کا رجحان بھی مضارو مفاسد سے خالی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح ((لَااِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہٗ)) وغیرہ کی قسم کی احادیث کو نفی ٔکمال پر محمول کیا جاتا ہے‘ اسی طرح اس حدیث سے بغیر کسی معقول وجہ کے کسی وارث کو بذریعہ وصیت کچھ زیادہ دینا ناجائز ثابت ہوگا۔ لیکن جب عقلاً و شرعاً قابل قبول وجوہ موجود ہوں تو وارث کے لیے بھی وصیت کرنے سے یہ حدیث نہیں روک سکتی۔ کیونکہ ’’ظاہرکتاب ‘‘سے مطلق وجوب وصیت ثابت ہوتا ہے۔ بغیر کسی ’’قطعی حجت‘‘ کے اسے ’’قطعیت کے ساتھ‘‘ مقید نہیں کیا جاسکتا۔

(۲)     بلوغ المرام‘ حاشیہ‘ ص۱۹۹ (بحوالہ فتح الباری)

(۳)    اس پر مفصل بحث کے لیے دیکھئے:تفسیر المنار ‘ج۲ ص ۱۳۴  ببعد

(۴)یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سورۃ المائدۃ جس کا نمبر ترتیب نزول کے لحاظ سے ۱۱۲ہے (اس کے بعد صرف سورۃ التوبہ اور النصر نازل ہوئیں)اس میں بھی وصیت کا ذکر موجود ہے۔ (المائدہ :۱۰۶)

(۵)     المحلٰی‘ ج۹‘ ص ۳۱۴ ‘مسئلہ نمبر۱۷۵۱                      (۶)     ایضاً

(۷)    ایضاً                                                     (۸)     مسلم‘ ج۶‘ ص ۷۰ وبخاری‘ ج۲‘ ص ۱۸۵

(۹)      مسلم‘ ج۶‘ ص ۷۰ ‘نیز المحلٰی‘ ج۹‘ ص ۳۱۳ ‘مسئلہ نمبر۱۷۴۹

(۱۰)  المحلٰی‘ ج۹‘ ص ۳۱۲

(۱۱)     قرآن حکیم میں حسب ذیل (۲۲) مقامات پر یتیم و یتامی کا ذکر آیا ہے ---- البقرۃ:۸۳‘۱۷۷‘ ۲۱۵‘۲۲۰ - النساء:۲‘۳‘۶‘۸‘۱۰‘۳۶‘۱۲۷۔ الانعام:۱۵۲۔ الانفال:۴۱۔ بنی اسرائیل:۳۴۔ الکہف:۸۲۔ الحشر:۷۔ الدھر:۸۔ الفجر:۱۷۔ البلد:۱۵۔ الضحیٰ:۶‘۹۔ الماعون:۲

 

باب چہارم

قانونِ وصیت کی ضرورت

        قرآن کے احکامِ وصیت میں پوشیدہ حکمتیں اور مصلحتیں اور آیاتِ میراث میں نفاذِ وصیت کی بار بار تاکید اس بات کی مقتاضی ہیں کہ جہاں اسلامی قانونِ وراثت جاری ہو وہاں لازماً اسلامی قانونِ وصیت بھی نافذ ہو۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وراثت کے ساتھ وصیت کا قانون نافذ نہ کرنا صریحاً احکامِ قرآنی کی خلاف ورزی ہے۔ تعجب ہے کہ جو لوگ یتیم پوتے کو وراثت دلوانے میں اس قدر سرگرداں ہیں وہ اس طرف کیوں توجہ نہیں دیتے۔ جس سے نہ صرف یتامی‘ بلکہ بیوہ بہنوں‘مفلس و نادار بھائیوں اور دوسرے محتاج و قابل امداد اقرباء کے لیے آسان وسہل ترقانونی صورت امداد پیدا ہوسکتی ہے  ----اگر حکومت قانونِ وراثت کے ساتھ ہبہ و وصیت کے اسلامی قانون بھی نافذ کرے او ربھاری ٹیکسوں اور عدالتی فیسوں کی ان غیر اسلامی رکاوٹوں اور تنگیوں کو دور کر دے‘ جو ان قوانین کے نفاذ کو عملاً مشکل بنادیتی ہیں‘ تو ملک میں شاذ ہی کوئی محروم الارث  پوتا نظر آئے گا۔

        چونکہ وجوبِ وصیت کا مسئلہ امت کے مایہ ناز علماء کے ایک گروہ کے مختاراتِ فقہیہ میں سے رہا ہے‘ اس لیے اس بارے میں حکومت کے لیے مزید قانون سازی کی گنجائش بھی نکل سکتی ہے ‘مثلاً اگر کسی ایسے محجوب الارث یتیم پوتے کے لیے جس کو اس کا دادا بذریعہ ہبہ یا وصیت کچھ نہ دے سکا ہو  ---اس کے دادا کی جائیداد سے ایک حصہ بطور وصیت دینا قانوناً واجب قرار دے دیا جائے   ---تو یہ قانونِ وراثت میں کسی طرح فٹ نہ ہوسکنے والے نظریہ قائم مقامی کی نسبت بدرجہا زیادہ سہل العمل اور مضرات و مفسدات سے نسبتاً محفوظ طریق کار ہوگا۔

        اس کی ایک مثال حکومت مصر کے قانون میں موجود بھی ہے ----حکومت مصر نے اپنے ایکٹ نمبر ۷۱۔۱۹۴۶ء کی رو سے ملک میں جو قانون وصیت نافذ کیا ہے اس میں اس قسم کی وصیت کے لیے خاص دفعات رکھی ہیں۔ چنانچہ اس کی دفعہ ۷۶ یوں ہے:

اذا لم یوص المیت لفرع ولدہ الذی مات فی حیاتہ اومات معہ ولوحکما‘ بمثل ماکان یستحقہ ھذا الولد میراثا فی ترکۃ لو کان حیا عند موتہ --- وجبت للفرع فی الترکۃ وصیۃ بقدر ھذا النصیب فی حدود الثلث‘ بشرط ان یکون غیروارث و ان لا یکون المیت قد اعطاہ بغیر عوض من طریق تصرف آخر قدر مایجب لہُ وان کان ما اعطاہ اقل منہ وجبت لہ وصیۃ بقدر ما یکملہ

’’جب میت اپنی اس اولاد کی اولاد کے لیے جو اس کی زندگی میں مرچکی ہے یا وہ اس کے ساتھ مری ہو یا اس پر قانوناً موت کا حکم لگایا جاسکتا ہو‘ اس قدر مال کی وصیت نہ کر مرا ہو جتنا اس (مرنے والی)اولاد کا حق ہوتااگر وہ (متوفی)اولاد اس (میت)کی وفات کے وقت زندہ موجود ہوتی ---- تو اس (متوفی اولاد) کی اولاد کے لیے ترکہ میت میں سے۳/۱کی حد کے اندر اندر اس کا وہ ممکن حصہ بطور وصیت دینا واجب ہوگا۔ (یعنی اگر وہ متوقع حصہ ترکہ کے۳/۱سے کم ہی کم میں پورا ہوگیا تو اسے تمام ۳/۱نہیں دے دیا جائے گا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ملے گا)لیکن شرط یہ ہے کہ وارث نہ بن رہا ہو اور نہ ہی (میت)اسے کسی دوسرے طریقے سے بغیر کسی عوض کے (ھبہ)اس کے واجب حصہ کے برابر مال دے چکاہو۔ اور اگر (اس طرح مال)دیا تو ہو لیکن وہ اس کے واجب حصے سے کم ہو تو صرف اتنے کے لیے وصیت واجب سمجھی جائے گی جس سے اس کا حصہ پورا ہوجائے ۔‘‘

وتکون ھذہ الوصیۃ لا ھل الطبقۃ الاولی من اولاد البنات ولاولاد الا بناء من اولاد الظھور وان نزلوا‘ علی ان یحجب کل اصل فرعہ دون فرع غیرہ‘ وان یقسم نصیب کل اصل علی فرعہ وان نزل قسمۃ المیراث‘ کما لو کان اصلہ اواصولہ الذین یدلی بھم الی المیت ماتوا بعدہ وکان موتھم مرتبا کترتیب الطبقات(۱)

’’اور یہ وصیت (واجبہ)بیٹیوں کی اولاد میں سے صرف پہلے طبقہ (نواسوں نواسیوں)اور بیٹوں کی صلبی اولاد کے لیے نیچے تک (پوتوں‘پڑوتوں‘سکڑوتوں تک)نافذ ہوگی‘ اس طرح سے کہ ہر اصل اپنی فرع کو تو محجوب کرے گا‘ لیکن دوسرے کی فرع کو محجوب نہ کرسکے گا اور ہر اصل کا حصہ اسی کی فرع پر (اور اسی طرح نیچے تک)بطریق میراث تقسیم ہوگا اور یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اس اصل کی موت جس کے واسطے سے یہ میت کے رشتہ دار ہیں‘ اس میت کی موت کے بعد واقع ہوئی۔ اور اگر نیچے اوپر کئی مرچکے ہوں تو اسی طرح مرنے کی ترتیب بھی طبقہ وار سمجھی جائے گی۔‘‘

        اس کے ساتھ ہی اس قانون کی دفعہ نمبر ۷۸میں تصریح کردی گئی ہے کہ اگر میت اپنی ایسی محجوب الارث اولاد الاولاد کے لیے تو کوئی وصیت نہ کرمرا ہو ‘لیکن کسی اور (اجنبی)کے لیے وصیت کر گیا ہو تو بھی یہ وصیت نافذ العمل نہیں ہوگی جب تک ترکہ کے۳/۱میں سے محجوب الارث اولاد الاولاد کا حصہ پور ا نہیں کر لیا جائے گا۔ اگر کچھ بچ رہا تو بقیہ اس اجنبی موصیٰ لہ (جس کے لیے وصیت کی گئی) کو دیا جائے گا‘ ورنہ اسے کچھ بھی نہیں ملے گا۔

        ذیل میں ہم مصری قانونِ وصیت کی ان دفعات کے اطلاق کو چند مثالوں سے واضح کرتے ہیں تاکہ اس کی افادیت ظاہر ہوجائے۔(۲)

مثال نمبر۱

متوفی ٰ

 

(۱)                                      (۲)                             (۳)

        بیٹا              ماں         بیوی                             دو پوتے                  دو نواسے

                                                (ایک ہی بیٹے سے)          (ایک ہی بیٹی سے)

 

        اس صورت میں ’’وصیۃ واجبۃ‘‘پوتوں اور نواسوں کے لیے قائم ہوگی۔ لیکن اگرچہ ان کی اصل یعنی بیٹا نمبر۲ اور بیٹی نمبر۳ کا حصہ کل جائیداد کے ۳/۱ سے زیادہ ہوتا تھا‘ تاہم وصیت صرف ۳/۱ میں جاری ہو گی اور وہ۳/۱ دو پوتوں اور نواسوں میں۲:۱(بیٹا:بیٹی) سے تقسیم ہو گا۔ پس دو پوتوں کو۳/۱ کا۳/۲=۹/۲ اور دو نواسوں کو۳/۱ کا ۳/۱=۹/۱ مال ملے گا۔ اب باقی ۳/۲ بیٹے‘ ماں اور بیوی میں حسب میراث تقسیم ہوگا تو ماںکو۳/۲ کا۶/۱=۹/۱ --

اور بیوی کو ۳/۲ کا۸/۱=۱۲/۱  ---- اور بیٹے کو ۱۔(۹/۲+۹/۲+۹/۱+۱۲/۱)=۳۶/۱۷ ملے گا۔

        خیال رہے کہ تہائی سے زیادہ میں وصیت نافذ نہ کرنے کے باعث پوتوں اور نواسوں کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ ہر پوتے کو اس کے ’’اصلی حصہ‘‘ سے صرف۳۶۰/۱۱ حصہ کم مل رہا ہے۔

 

مثال نمبر۲

                                                متوفی

 

                        دو پوتے                  بیٹا              بیٹا              بیٹی

                    (ایک ہی مردہ بیٹے سے)

 

        متوفی نے اس مثال میں دیے ہوئے نقشے کے مطابق وارث چھوڑے اور کسی اور (اجنبی)آدمی کے لیے وصیت بھی کر گیا ہے تو اب یہ وصیت نافذ نہیں کی جائے گی‘ بلکہ ۳/۱میں سے پہلے دو پوتوں کو ان کے باپ کا حصہ دیا جائے گا اور یہ  ۷/۲بنتا ہے ۔ پس دونوں پوتے ۷/۲ حصہ جائیداد مناصفۃً (بحصہ برابر)لیں گے اور موصیٰ لہ کو بقایا۳/۱-۷/۲=۲۱/۱ حصہ (صرف) دیا جائے گا۔

        دونوں بیٹے اور بیٹی بقایا۳/۲ کو ۲:۲:۱ سے تقسیم کر لیں گے ‘دونوں بیٹے۱۵/۸ بحصہ برابر لیں گے اور بیٹی کو ۱۵/۲ ملے گا   --- گویا اجنبی موصیٰ لہ کو بھی کچھ مل گیا اور باقی ہر ایک کو بھی پورا حق مل گیا۔

مثال نمبر۳

متوفی

 

(۱)              (۲)             (۳)    (۴)             (۵)     (۶)     (۷)    (۸)

بیٹیx             بیٹاx             بیٹی      بیٹی              بیٹی      بیٹا      بیٹا      بیٹا

                                        (۹)                     (۱۰)

                                        بیٹا                      بیٹی

(نوٹ: متوفی کی زندگی میں مرنے والوں کے سامنےxکا نشان ہے)

 

اس مثال میں بیٹا نمبر(۹) اور بیٹی نمبر (۱۰)یعنی نواسے اور پوتی کے لیے وصیت واجبہ قائم ہوگی۔ پس اگر تمام زندہ ہوتے تو ان کے ماں اور باپ کو علی الترتیب۱۲/۱اور۱۲/۲(۶/۱) حصہ ملتا۔ اور یہ حصہ کل ترکہ کے ۳/۱ سے کم (۴/۱) ہی میں پورا ہو گیا ‘لہٰذا تمام ۳/۱ حصہ ترکہ ان میں تقسیم نہیں ہو گا بلکہ بیٹا نمبر۹ (نواسہ) اپنی ماں کا حصہ۱۲/۱ لے گا اور بیٹی نمبر۱(پوتی) اپنے باپ کا حصہ۶/۱ پائے گی۔

        اس صورت میں بھی کسی کو نقصان نہیں ہوا۔

        ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قانونِ وصیت کے نفاذ اور بصورت خاص محجوب الارث پوتے کے لیے وصیت واجب قرار دینے سے یہ مسئلہ ایک حد تک نہایت عمدہ اور مزاجِ قرآنی سے قریب تر طریقے پر حل ہوجاتا ہے ‘لیکن یہ صرف قانونِ وصیت کی عام ضرورت اور اس میں ایک خاص ترمیم اور اس کی کیفیت و نتائج کا ذکر تھا۔ اگلے باب میں ہم اسلامی قانونِ وراثت کا ان ہی پہلوؤں سے جائزہ لیں گے۔

حواشی و حوالہ جات

(۱)      المواریث الا سلامیہ‘ صفحہ ۱۳۷

(۲)     یہ مثالیں کتاب المواریث الا سلامیہ کے آخری حصہ (صفحات ۱۴۰ تا ۱۴۵)میں دی ہوئی تشریحات سے منتخب کی گئی ہیں۔

باب پنجم

اسلامی قانونِ وراثت میں ترمیم کے امکانات

        قرآن حکیم کا اعلانیہ دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حالات کی اصلاح کے لیے نازل کیا گیا ہے اور انسانی حالات ہر لمحہ تغیر پذیر ہیں۔ اسلام زندگی کا دستور العمل ہے اور زندگی ساکن و جامد شے نہیں ہے ‘بلکہ زمان و مکان کے ساتھ ساتھ اس کے ضروریات و مقتضیات بدلتے چلے جاتے ہیں  ----لیکن اس کے باوجود زندگی محض اور مطلق تغیر و انقلاب ہی کا نام نہیں ہے۔ اس کی ایک مستقل و محکم بنیاد اور مضبوط و ناقابل تبدیل اساس بھی ہے جسے قرآن لفظ ’’فطرت‘‘سے تعبیر کرتا ہے اور قرآن ہی آسمانی ہدایت کا وہ آخری ایڈیشن ہے جس میں زندگی کے ان اندرونی اور بیرونی تقاضوں کو نہایت خوبی سے ملحوظ رکھا گیا ہے   ----اور کیوں نہ ہو  {اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} (الملک)

        اسلامی قانون انسانی فکر و نظر اور فقہ و دانش کی رفتارِ ترقی کو روک نہیں دیتا‘ بلکہ اس کے لیے صرف نشانِ راہ متعین کر دیتا ہے ‘تاکہ وہ بے راہ روی سے بچا رہے۔ یہ نشانات راہ‘یہ غیر متبدل اصول اسلامی قانون کی اپنی ہستی اور انفرادیت برقرار رکھنے کے لیے اٹل اور قطعی ہیں‘ لیکن اس کے باوجود وہ اس خوبی اور حکمت سے وضع کیے گئے ہیں کہ ان کا دامن کسی وقت بھی انسانی تمدن کی روز افزوں ضروریات اور متغیر حالات کے لیے تنگ نہیں ہوسکتا۔ اسلامی قانون کی اس بے اندازہ وسعت اور ترقی پذیری پر صحابہؓ ‘تابعین‘تبع تابعین اور مسلمانوں کے فکری عروج کے زمانے کے فقہاء و ائمہ مجتہدین کے اجتہادات‘تاویل و تعبیر احکام میں اختلافات ‘اور قیاس و استحسان پر مبنی استنباطات گواہ ہیں  ---- صرف گواہ ہی نہیں ‘بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے لکھا ہے:

The teaching of Quran that life is a process of progressive creation neccessiates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems  ((1

یہ بات بلاخوف لومۃ لائم کہی جاسکتی ہے کہ کسی مستنبط و مجتہد فیہ مسئلہ میں کسی امام اور مجتہد کے قول کو قطعیت کے ساتھ حرفِ آخر نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی کسی امام و مجتہد نے کبھی اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے۔ بلکہ بعض علماء (مثلاً شوکانی اور کرخی)تو صحابہؓ کے مدرک بالقیاس فیصلوں کو بھی خاص حالات و ضروریات میں ترک کر دینا جائز سمجھتے ہیں (۲)۔خصوصاً جبکہ مقصد کسی مصلحت شرعیہ کی حفاظت ہو اور وہ مصلحت قطعی ضروری ہو تو مصلحت کو نص پر بھی ترجیح دی جاسکتی ہے (۳)۔ خود خلفائے راشدینj کے بعض اقدامات اس بارے میں مشعل راہ ہیں----مثلاً حضرت ابوبکرؓ نے شربِ خمر کی حد ۴۰کوڑے مقرر کی ‘حالانکہ اس سے پہلے کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ بعد میں اسی سزا کو حضرت عمرؓ نے (اور بقولِ بعض حضرت عثمانؓ نے)بمشورہ حضرت علیؓ ۸۰کوڑے کر دیا تھا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے متعلق ایسے متعدد اجتہادات ملتے ہیں (۴)مثلاً (۱)انہوں نے مؤلفۃ القلوب کا حصہ صدقات سے ساقط کر دیا ‘حالانکہ یہ بنص ثابت ہے۔ (۲)عام المجاعہ(۱۸ھ کا مشہور قحط)میں انہوں نے حد سرقہ (قطع ید)ساقط کر دی تھی۔ (۳)اُمّ الولد کی بیع روک دی۔(۴)مفقود الخبرکی زوجہ کی تطلیق کا حکم دیا جبکہ اسے گم ہوئے یا اس کی خبر نہ آئے چار سال گزر چکے ہوں۔ (۵)مکاتبت کے حکم کو وجوبی قرار دیا۔ وغیر ذلک۔

        الغرض اس قسم کے متعدد و اقعات اور نظائر موجود ہیں جن سے وقت کی ضروریات اور حالات کے اقتضاء سے فقہی فیصلوں کو بدلنے کا ثبوت ملتا ہے اور ہر زمانے میں ایسا کیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً مختلف فیہ مسائل میں تو اس کی گنجائش بہت زیادہ ہے(۵)۔ لیکن اس بارے میں کچھ احتیاطیں ضروری ہیں ۔ خصوصاً ایک تو یہ کہ فیصلہ کرنے والے اشخاص دینی تعلیم اور ذہنی تربیت کے بلند معیار پر ہوں اور عربی زبان کی مہارت‘شریعت کے جملہ احکام میں گہری بصیرت‘معاملاتِ زندگی کا عمدہ فہم‘قانونی دماغ اور نکتہ رس نگاہ اور ذاتی تقویٰ اور خوفِ خداکی صفات جس شخص میں ہوں صرف اسی کی بات قابل قبول سمجھی جائے۔

        اور دوسری بات یہ کہ نئے حکم سے قرآن کے کسی صریح حکم کی خلاف ورزی کا پہلو نہ نکلتا ہو۔ اور بالخصوص ایسا حکم جس کی عدم تعمیل پر عذاب کی وعید موجود ہو۔

        ان امور کی روشنی میں اسلامی قانونِ وراثت میں جس قدر حصہ اجتہاد و قیاس پر مبنی ہے وہ کسی وقت بھی نظر ثانی کا محتاج ہوسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دادا کی میراث کے متعلق سو مختلف رائیں قائم کیں اور بعض مسائل کے متعلق تو وہ مرتے دم تک کوئی قطعی رائے قائم نہ کرسکے(۶)۔آج بھی کوئی اسلامی حکومت ماہرین فن (علمائے دین)کی مدد سے قرآن و سنت کی روشنی میں اور حدود اللہ کے اندر رہ کر قانون میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کی ایک مثال حکومت مصر کے جدید قانونِ وراثت میں ملتی ہے۔

        اس قانون میں مراتب استحقاقِ وراثت (۷)میں موالی العتاقہ اور ان کے عصبات کو چھٹے نمبر پر رکھا گیا ہے‘ حالانکہ بالا تفاق ان کو تیسرے درجہ پر سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ذوی الارحام کے بعد پانچویں نمبر  الردّ علی احد الزّوجین کو رکھا گیا ہے‘حالانکہ اہل سنت کے چاروں ائمہ زوجین پر رد کے کسی صورت میں قائل نہیں ہیں(۸)۔ لیکن حکومت مصر نے اس بارے میں حضرت عثمانؓ کی رائے پر عمل کیا ہے --پھر بعض خاص مسائل مثلاً ’’مسئلہ اکدریہ‘‘ اور ’’مسئلہ مشترکہ‘‘وغیرہ میں بھی کسی خاص فقہی سکول کی پابندی نہیں کی گئی (۹)۔ محجوب الارث یتیم پوتے کے مسئلہ کو حکومت مصر نے اپنے قانون وصیت واجبہ کے ذریعے حل کیا ہے‘ قانون وراثت میں کوئی ترمیم نہیں کی۔

        اس وقت ہمارے سامنے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ قانونِ وراثت میں اس غرض کے لیے کسی ترمیم وغیرہ کا امکان ہے یانہیں؟

        جہاں تک محجوب الارث یتیموں کے مستقبل کی حفاظت کے لیے ان کو اپنے دادا کی جائیداد سے حصہ دلانے کے لیے کوئی قانونی ذریعہ مہیا کرنے کا تعلق ہے تو یہ مقصد خلافِ اسلام نہیں کہا جاسکتا ‘بلکہ یہ عین تقاضائے تعلیم قرآن ہے۔ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ چونکہ یتیم پوتا محجوب الارث ہے اس لیے اس کو کچھ دلانے کا ذریعہ پیدا کرنا خلافِ احکامِ اسلام ہے تو یہ سراسر اس کی جہالت اور فہم قرآن سے بالکل کورا ہونے کا ثبوت ہوگا۔ ونعوذ باللّٰہ ان نکون من الجاھلین!

        اب اس طرف آئیے کہ وہ ’’قانونی ذریعہ‘‘ کیا ہو؟ ممکن قانونی ذریعے چار ہوسکتے ہیں:(۱) ہبہ (۲)وصیت (۳) نفقہ (۴)وراثت۔ یہاں ہمیں مؤخرالذکر سے بحث کرنا مطلوب ہے ----یہ بالکل بدیہی سی بات ہے کہ یتیم پوتا اپنے دادا یا دادی کی جائیداد سے ’’بطور وراثت‘‘ اسی صورت میں کچھ پاسکتا ہے جبکہ اسے اپنے باپ کا قائم مقام تسلیم کر لیا جائے ‘لیکن ہم اس بات پر مفصل بحث کر چکے ہیں کہ بطور قاعدہ کلیہ کے اصولِ نیابت اسلامی قانونِ وراثت میں کسی طرح بھی نہیں چل سکتا ۔ اور جہاں تک اس ’’کلیت‘‘ کا تعلق ہے فقہائے متقدمین سے قرآن کا مفہوم سمجھنے میں ہرگز کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔(۱۰)

        اب ایک صورت یہ رہ جاتی ہے کہ یتیم پوتے کی خاطر قانونِ وراثت میں ایک استثناء تسلیم کیا جائے (۱۱) مثلاً یوں کہ ’’صرف اس اولاد کی صورت میں جو اپنے ماں یا باپ کی زندگی میں مرجائیں اور اپنے پیچھے اپنی فرع (اولاد)بھی چھوڑ جائیں تو بطور استثناء ان کی موت کو اپنے مورث کی موت کے بعد فرض کرکے ان کا حصہ نکالا جائے اور پھر ان کے موجودہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے‘‘ --- اگرچہ اس قسم کی قانون سازی میں ایک خود رایانہ پہلو پایا جاتا ہے جو مفاسد سے خالی نہیں ہوسکتا (کیونکہ قرآن کے متعدد قسم کے مقرر کردہ وارثوں میں سے ہم صرف ایک قسم کے لیے یہ حق تسلیم کررہے ہوں گے)تاہم محض اس بنا پر کہ اس کا مقصد ایک مصلحت شرعی ---مصالح یتامی  ---کا تحفظ ہے‘لہٰذا اس قسم کے استثناء کو روحِ اسلام کے منافی نہ سمجھتے ہوئے جائز گردان بھی لیں۔ لیکن آئیے اب غور کیجیے کہ اس طرح یتیم کو حاصل کیا ہوگا؟

        جب آپ اس طرح کسی مرنے والے (کی موت مورث کے بعد فرض کرکے اس)کا حصہ نکالیں گے تو وہ تمام کا تمام حصہ اس کی اولاد میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ازروئے قرآن اولاد کی موجودگی میں بھی ماں یا باپ اور خاوند یا بیوی میں سے جو بھی موجود ہوں گے ان کا حصہ نکالنا ضروری ہے۔

        گویا قرآن کی تقسیم وراثت کی رو سے اولاد کے ہوتے ہوئے بھی نصف کے قریب یا بعض دفعہ نصف سے زیادہ جائیداد دوسرے وارث لے سکتے ہیں‘ مثلاً جب میت کی اولاد کے ساتھ اس کے والدین اور بیوی بھی موجود ہوں تو۲۴/۱۱حصہ تو یہ لے جائیں گے اور باقی۲۴/۱۳ اولاد میں تقسیم ہو گا۔ اسی طرح اگر میت عورت ہو اور اولاد کے ساتھ والدین اور خاوند بھی چھوڑ رہی ہو تو اس کے ترکے کا صرف ۱۲/۵حصہ اس کی اولاد کو ملے گا۔

        اب اگر ہم مندرجہ بالا استثناء کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مردہ بیٹے کا حصہ نکالیں اور اس کی اولاد کے علاوہ اس کی بیوی اور ماں بھی زندہ موجود ہوں تو ان کو۸/۱+۶/۱=۲۴/۷یعنی تہائی کے قریب لازماً دینا پڑے گا (۱۲) تواس طرح یہ نیا استثناء تسلیم کر لینے کے باوجود بھی یتیم پوتے کو بہت کم صورتوں میں اپنے باپ کی پوری جائیداد مل سکتی ہے۔

        لیکن اس کے برعکس ہم دیکھ چکے ہیں کہ قانونِ وصیت کی رو سے بعض صورتوں میں اس کی مصلحتوں کے پیش نظر اس کے متوقع حصے سے زیادہ (ثلث کی حد کے اندر رہتے ہوئے بھی)دیا جا سکتا ہے۔ اور اگر مصری قانون کی طرح ’’وصیت واجبہ‘‘ نافذ کی جائے تو بھی شاذ صورتوں میں اسے اپنے متوقع حصہ سے کم مل سکتا ہے(۱۳)۔ اور پھر قانون وصیت سے صرف یتیم پوتے کا ہی نہیں‘ بلکہ اور بھی محتاج اقرباء کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ نیز اس سے قرآن کے ایک حکم کی تعمیل بھی ہوجاتی ہے۔

        اس طرح سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسلامی قانون ہبہ و وصیت کے ہوتے ہوئے قانون وراثت میں خاص محجوب الارث پوتے کے لیے کسی استثناء یا ترمیم وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی‘ اور نہ ہی یہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اصل ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسلامی قانون وراثت کے ساتھ فوراً اسلامی قانون وصیت نافذ کیا جائے اور ایسی خاص صورتوں میں جبکہ دادا نہ تو زندگی میں کچھ دے سکا ہو اور نہ ہی وصیت کرسکا ہو (اورقانون وصیت کے نفاذ کے بعد ایسے واقعات(cases)بہت کم بلکہ شاذ ہی پیش آئیں گے)تو اس کے لیے چار صورتیں ہوسکتی ہیں:

(۱)      حکومت خود ایسے یتامی کی کفالت اپنے ہاتھ میں لے اور یہ سب سے بہترین اور صحیح ترین اسلامی صورت ہے۔

(۲)     وارث چچاؤں پر نفقہ تاحد بلوغ واجب قرار دیا جائے۔ یہ صورت بھی ہماری فقہ میں موجود ہے اور موجودہ زمانے میں بعض ممالک  میں اس کے مماثل قانون بھی ملتے ہیں ‘مثلاً انگلستان میں فرزند اکبر کی صورت میں باقی کے افراد نفقہ پاتے ہیں۔

(۳)    مصری قانون کی طرح ایسی خاص صورت کے لیے ’’وصیت واجبہ‘‘ کے نفاذ کا اختیار عدالت کو دیا جائے۔

(۴)     ایسی مخصوص صورتوں کے لیے اس قسم کا ’’استثناء‘‘ تسلیم کیا جائے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہوچکا ہے‘ لیکن ایسا ’’استثناء‘‘ اس صورت میں جائز ہوسکتا ہے جبکہ وہ واقعی ’’ما یثبت بطریق الضرورۃ فیقدر بقدر الضرورۃ‘‘کے فقہی اصول کے مطابق ہو‘ یعنی زیادہ سے زیادہ قرآنی حدود میں مقید ہو۔ اصول قائم مقامی کے بآسانی چلانے کے لیے صرف ’’نسبی رشتہ داروں‘‘پر اس کا اطلاق کرنا یقیناً و صریحاً خلافِ قرآن ہوگا اور اسے ہرگز روا نہیں رکھا جاسکتا۔

ہماری رائے میں مؤخر الذکر ہر دو صورتیں ’’جائز‘‘اور ’’مباح‘‘ کی حد تک ہیں‘ جبکہ وصیت کا قانون نافذ کرنا اور یتامی کی کفالت خودحکومت کا اپنے ذمہ لینا ’’ضروری ‘‘اور’’ واجب‘‘ کے درجہ میں ہیں   ---اور واجب اصلی کو نظر انداز کرکے ضرورتاً جائز چیز کو واجب کرنے کے لیے بے چین ہونا صحیح اسلامی روح کی بجائے بعض دوسرے عوامل کے اثرات کی غمازی کرتا ہے۔

حواشی اور حوالہ جات

(1)    Reconstruction of Religious Thought in Islam,page168

(۲)     خطباتِ اقبال (انگریزی)‘ ص۱۲۸               (۳)    اصول التشریع الاسلامی ‘ص ۸۳

(۴)     الفاروق‘ص۱۷۱ و ص۲۳۸ ۔نیز اصول التشریع الاسلامی‘ ص۸۵

(۵)     بلکہ شاید یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ جس مسئلہ پر امت میںمتعدد نظریات موجود ہیں ان میں سے ہر ایک نظریہ مخصوص حالات و ضروریات میں اس مسئلہ کا بہترین اور صحیح ترین حل قرار دیاجاسکتا ہے۔ مثلاً خلافت و امارت کے مسئلے میں سنیوں کے نظریہ قرشیت اور شیعوں کے نظریہ امامت کے مقابلے پر آج خوارج کا ’’نظریہ انتخاب‘‘کس قدر قرین صواب نظر آتا ہے۔

(۶)     الفاروق ‘ص۲۳۲

(۷)    عام مروّجہ ترتیب کے لیے دیکھئے ‘مقالہ ہذاکے حصہ اول کے بابِ چہارم ’’وارثوں کے طبقات‘‘ کا حاشیہ نمبر۱۰

(۸)     البتہ اگر ایسا رشتہ ہو جس میں فرض اور تعصیب جمع ہوجائیں ‘مثلاً خاوند ابن عم شقیق (سگے چچا کا بیٹا)بھی ہو تو اس صور ت میں۲/۱کے علاوہ باقی بطور عصبہ پاسکتا ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

(۹)  تفصیلات کے لیے دیکھئے کتاب المواریث الاسلامیہ ص۱۶ وص۴۳۔۴۴

(۱۰)    بلکہ جو حضرات اس مسئلہ کے متعلق کل تک ’’خلافِ قرآن ‘‘ہونے کے فقہی ثبوت دے رہے تھے‘ خود ان پر بھی اصولِ نیابت کی کلیت کی غلطی ‘بلکہ لغویت واضح ہوگئی ہے اور وہ خود بھی اس اصول کو صرف ’’نسبی رشتہ داروں‘‘تک محدود کرنے کے قائل ہوگئے ہیں۔ (دیکھئے طلوعِ اسلام‘ ماہ مارچ ۱۹۵۴ء ص۵۸ تا ۶۰) حالانکہ یہ’’ نسبی‘‘ کی تخصیص بجائے خود غیر قرآنی بلکہ صریحاً خلافِ قرآن ہے۔ نیز دیکھئے : مقالہ ہذا کے اگلے صفحات میں آنے والا ضمیمہ الف

(۱۱)     جس طرح اخیافی بھائیوں کی وراثت کے متعلق فقہ فرائض میں ایک استثناء موجود ہے ‘دیکھئے مقالہ ہذا کے حصہ اول کا باب سوم۔

(۱۲) اس قسم کے استثناء میں صرف نسبی ’’رشتہ داروں‘‘کو وارث بنانا اور بیوی یا ماں کو نظر انداز کرنا صریحاً خلافِ قرآن ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی‘ لیکن تعجب ہے کہ وہ لوگ جو اپنی فکر کی بنیاد صرف قرآن پر رکھنے کے مدعی ہیں وہ بھی میاں بیوی جیسے تعلق وراثت کو جو قرآن کا صریح حکم ہے اور دنیا بھر کے قوانین وراثت میں اپنی نظیر آپ ہے----نظر انداز کرنے پر رضامندہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ’’اجتہاد‘‘سراسر خلافِ قرآن ہے اور محض جاہلانہ تحکم ہے۔ (میرا اشارہ رسالہ طلوع اسلام‘ ماہ مارچ ۱۹۵۴ء (ص۵۸۔۶۰)کی طرف ہے)

(۱۳)  تو ضیحات کے لیے دیکھئے ‘مقالہ ہذا کے حصہ دوم کا باب چہارم ‘ مثال۱‘ ۲ اور ۳۔

ضمیمہ’’ الف‘‘

        پنجاب اسمبلی کے اجلاس منعقدہ۳دسمبر۱۹۵۳ء میں چودھری محمد اقبال صاحب چیمہ ایم ایل اے کی طرف سے ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا‘ جس کا مقصد اسلامی قانون وراثت (پنجاب شریعت ایکٹ ۱۹۴۸ء) میں ایسی ترمیم کرنا ہے جس کی رو سے یتیم پوتوں کو بھی حصہ مل سکے۔ اگرچہ اصل مسئلہ پر اپنا نقطہ نظر ہم اصل مقالہ میں پیش کرچکے ہیں‘تاہم چونکہ چیمہ صاحب کا مجوزہ بل بھی ہمارے موضوعِ بحث سے خاص تعلق رکھتا ہے‘ لہٰذا اس بل پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ یہ بحث تشنہ تکمیل نہ رہ جائے۔

        چیمہ صاحب کے مجوزہ ترمیمی بل کے وجوہ و مقاصد یوں بیان کیے گئے ہیں:

        ’’یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ اسلامی قانونِ وراثت کے لیے اصولِ نیابت بالکل اجنبی ہے۔ اس وقت مورث کی وفات سے پہلے مرنے والے بیٹے یا بیٹی اور بھائی یا بہن کی اولاد کو اس مورث کی جائیداد سے کچھ حصہ نہیں ملتا ۔ شریعت میں کوئی ایسی واضح ممانعت موجود نہیں ہے کہ یہ اشخاص مورث کی دوسری اولاد کی موجودگی  میں محجوب الارث ہی ٹھہریں گے۔ قانون (وراثت)کا مروجہ نظریہ یتیم پوتوں پوتیوں‘نواسوں نواسیوں‘بھتیجوں بھانجوں وغیرہ کی زندگی بڑی اندوہناک بنا دیتا ہے۔ پس قانون کو اسلامی روح سے سازگار بنانے کے لیے یہ ترمیم تجویز کی جاتی ہے۔‘‘

        افسوس ہے کہ اس بیان میں بہت کچھ خلط مبحث کر دیا گیا ہے ‘تاہم مندرجہ ذیل امور قابل غور ہیں:

(۱)      یہ محض خیال ہی نہیں حقیقت ہے کہ اصول قائم مقامی اسلامی قانونِ وراثت کے لیے واقعی اجنبی اور ناقابل عمل ہے۔(۱)

(۲)     بھائی بہن کی اولاد کو بھی اس ترمیم سے مستفیض کرنا تعجب خیز ہے۔ اسلامی قانون وراثت ان کو اپنے ماں باپ کی جائیداد سے کب محروم کرتا ہے کہ ان کو بھی محجوب الارث کی صف میں لا کھڑا کر دیا جائے   ---- آخر مرحوم بیوی یا خاوند کے وارثوں کو بھی کیوں نہ اس ترمیم میں شامل کر لیا جائے؟

(۳)    اگر شریعت تیرہ سو برس تک امت سے مخفی نہیں رہی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قانونِ شریعت کی رو سے بیٹے بیٹی اور بھائی بہن کی اولاد اپنے سے اعلیٰ درجہ کے وارث کی موجودگی میں محجوب الارث ہی قرار دی گئی ہے۔ چونکہ یہ اصول قائم مقامی کے بغیر وارث نہیں ہوسکتے اور اصول قائم مقامی پر عمل قرآن کے واضح احکام کو نظر انداز کیے بغیر ہو نہیں سکتا‘ لہٰذا محجوب الارث کا مسئلہ قرآن کا واضح حکم نہ سہی لیکن اس کے واضح احکام کی تعمیل کا لازمی تقاضا (corollary)ضرور ہے۔

        اگر یہ کہنے کی بجائے کہ ’’شریعت میں کوئی ایسی واضح ممانعت موجود نہیں ہے کہ یہ اشخاص مورث کی دوسری اولاد کی موجودگی میں محجوب الارث ہی ٹھہریں گے‘‘ ----  یوں کہا جاتا کہ ’’چونکہ اسلامی قانون وراثت کی مخصوص وضع و مزاج کے باعث اصول قائم مقامی اس میں جاری نہیں ہوسکتا جس کی وجہ سے بعض محجوب الارث وارثوں اور خصوصاً یتیم پوتوں کو مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ‘لہٰذا ان یتامی کے معاشی مستقبل کی حفاظت و بہبود کے لیے‘جو ازروئے قرآن ضروری ہے ‘فلاں تجویز (مثلاً قانون وصیت یا حکومت کی کفالت یا ایک مخصوص استثناء وغیرہ)پیش کی جاتی ہے‘‘ ----  تو یہ کہنے میں البتہ کوئی بات بھی تھی ۔جب آپ کے خیال میں شریعت میں ممانعت ہی نہیں تو یہ بل ہی کس لیے تجویز کیا گیا؟ تفنن طبع کے لیے یہاں بل زیر بحث پر آنریبل مسٹر جسٹس جے آر چسن صاحب جج ہائی کورٹ لاہور) Hon'ble Mr. Justice J. Ortcheson)کی رائے جو انہوں نے بحیثیت ایک فاضل قانون دان ہونے کے ظاہر کی ہے  ----کا ذکر کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

"In my opinion if the principle laid down in the bill is in accordance with the Shariat, it is unneccessary, or if it is against the Shariat, it is invalid." (2)

        یہ تو بل کے اغراض و مقاصد پر تبصرہ تھا۔ اب ذرا اصل مطلوبہ ترمیم ملاحظہ فرمائیں:

        -- ’’جب کوئی بیٹا بیٹی ‘یا بھائی یا بہن اپنے مورث سے وراثت پانے سے پہلے فوت ہوجائے  -- تو ان کا حق وراثت بوقت تقسیم وراثت ِمورث ان (فوت شدہ)کے اپنے ’’جانشینوں اور وارثوں‘‘کی طرف منتقل کیاجائے گا (اور یہ سمجھ لیا جائے گا)کہ گویا اشخاص متذکرہ بالا اپنے مورث (آخری مالک)کی وفات کے فوراً بعد مرے تھے۔‘‘

        مقالہ کے حصہ دوم کے مطالعہ کے بعد ان غلط فہمیوں اور مشکلات و مفسدات کا دریافت کر لینا دشوار نہیں ہے جو یہ ترمیم اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے(۳)۔ دراصل یہ ترمیم بالکل اسی اصول پر مبنی ہے جس سے ہم مفصل بحث کر چکے ہیں(۴)۔ یعنی یہ کہ ’’ہونے والے وارثوں ‘‘کی موت کی صورت میں ان کا حصہ ان کے اپنے وارثوں اور جانشینوں کو منتقل کر دیا جائے ----البتہ ان ’’ہونے والے وارثوں‘‘میں سے صرف بیٹا بیٹی بھائی بہن منتخب کیے گئے ہیں‘ معلوم نہیں والدین اور زوجین کو کیوں اس رعایت سے محروم کیا جارہا ہے؟

        دراصل ترمیم میں ’’کوئی بیٹا یا بیٹی ‘‘اور’’ ان کے جانشینوں اور وارثوں‘‘کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ محرک اور مجوز کے ذہن میںوارث اور جانشین کا مطلب اولاد اور صرف اولاد ہے ----(جو خالص ہندو نظریہ ہے)قرآن حکیم کے چھ بنیادی وارثوں (بیٹا ‘بیٹی ‘ماں ‘باپ‘ بیوی‘ خاوند)کو ذہن میں رکھنے کے بعد اس ترمیم کے مہمل‘ ناقابل عمل اور قرآن کے واضح اور ظاہر احکام میراث سے لاعلمی پر مبنی ہونے میں کچھ شبہ نہیں رہ جاتا۔

        یہ ہوسکتا ہے کہ اس ترمیم کے الفاظ میں ترمیم کرکے اسے اس قسم کی استثناء کی شکل دی جائے جس کا ذکر مقالہ ہٰذا کے حصہ دوم کے باب پنجم میں ہوچکا ہے‘ لیکن بہرحال پھر بھی یہ اس مسئلہ کا تسلی بخش حل نہیں ہوگا اور فوائد سے زیادہ اس میں خطرات ومفسدات مضمر ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اس قسم کے استثناء کی ضرورت بھی اس وقت درپیش آسکتی ہے (۵)جب قانونِ وراثت‘قانونِ ہبہ اور قانونِ وصیت تینوں نافذ ہوں اور پھر بھی کچھ ایسے واقعات (cases) سامنے آئیں جسے کسی خاص ’’آسمانی افتاد‘‘نے ان تمام قوانین سے متمتع نہ ہونے دیا ہو۔ اور پھر ’’ایسی مخصوص صورتوں‘‘کے حل کے لیے بھی یہ سوچا جائے گا کہ اس میں سب سے پہلے وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو اسلام کی نظروں میں زیادہ ضروری ہے‘ مثلاً حکومت کی کفالت  ----اور اگر اس بہتر طریقہ کے اختیار کرنے میں کوئی قابل قبول عذر اور مجبوریاں موجود ہوں تب اس صورت میں بے شک اس قسم کے استثناء کو زیر غور لایاجاسکتا ہے اور جائز بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔ لیکن جو سب سے آخر کی چیز ہے اسے سب سے پہلے لانا سراسر تحکم اور نادانی ہے۔ اسلامی احکام و مسائل پر بحث کرتے وقت ضد‘ہٹ دھرمی اور فتح و شکست کے نظریوں سے سوچنے کی بجائے تقویٰ‘خوفِ خدا‘اتباعِ رسول اور احترامِ دین کے جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

{ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِU}  (الحدید)

        (اس کے بعد آگے ضمیمہ ’’ب‘‘بھی ضرور ملاحظہ فرمائیں!)

ضمیمہ ’’ب‘‘

        اگرچہ مقالہ ’’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ خالص علمی ضرورت اور مقصد کے ماتحت لکھا گیا ہے ‘لیکن چونکہ یہ بحث ایک خالص قرآنی حکم سے متعلق تھی اس لیے بحیثیت ایک طالب علم کے نہیں بلکہ بحیثیت ایک مسلمان کے  ----اور دراصل سب حیثیتوں سے مقدم یہی حیثیت ہے   ----یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ جب سے میں نے اس مسئلہ کی تحقیقات‘اور اسے سمجھنے کی کوشش شروع کی تھی‘ میں اپنی اکثر نمازوںکے ساتھ بالا لتزام اللہ تعالیٰ سے بصدقِ دل دعا مانگتا رہا ہوں کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق راہِ حق اور صورتِ صواب پر میرے دل کو مطمئن کر دے۔ اس دوران میں بار بار میری رائے بدلتی بھی رہی ہے‘ لیکن بالآخر مسلسل مطالعہ‘ذاتی بحث و مباحثہ اور آزادانہ غور و فکر کے بعد میں نے اس مسئلہ کے متعلق مختلف آراء کا تجزیہ کرکے جو کچھ شرح صدر کے ساتھ سمجھا ہے اسے مقالہ میں پیش کر دیا ہے  ----اپنی بساط بھر پوری علمی سعی و کوشش اور اپنی پرخلوص دعاؤں کے بھروسے پر کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے گمراہی سے محفوظ رکھا ہو گا۔ تاہم میں یہی کہتا ہوں کہ اگر میں نے حق سمجھا اور کہا ہے تو یہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی مہربانی ہے ----اور اگر خدانخواستہ میں نے کوئی غلط رائے قائم کی ہے یا غلط بات بیان کی ہے تو وہ میری طرف سے ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اور اس کے لیے اہل حق و ہدایت سے اصلاح کا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور عفو کا طلبگار ہوں۔

{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ}

                                                                                                                    (آل عمران)

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      دیکھئے مقالہ ہذا کے حصہ دوم کا باب دوم‘ فصل دوم : اصول قائم مقامی پر بحث۔

(۲)     پنجاب مقننہ (اسمبلی)کی طبع کردہ پبلک آراء اس مسئلہ پر (انگریزی میں)ص۲۔

(۳)    اس ضمن میں’’opinon‘‘یعنی ’’پنجاب‘‘ مقننہ کی طبع کردہ پبلک آراء میں آنریبل جسٹس کیکائوس (ص۱) چوہدری فضل حق سیشن جج کیمبلپور (ص ۷۵)اور سینئر سول جج مظفر گڑھ (ضمیمہ آراء ص۳۔۷) کی آراء قابل ملاحظہ ہیں۔

(۴)     مقالہ ہذا  کے حصہ دوم کا باب دوم‘ فصل دوم: اصول قائم مقامی پر بحث۔

(۵)     اور اس قسم کے استثناء کو ہر صورت میں اور ہر قیمت پر ناجائز کہنا اورمطلقاً اس کے تصور کو ہی سراسر خلاف قرآن سمجھ لینابھی روح قرآن و اسلام سے بے خبری ہے۔کیونکہ کسی ایسے مقصد شرعی کی حفاظت کرنا جس کا مقصد شرعی ہونا کتاب و سنت یا اجماع سے معلوم ہو اور اس کا مقصود ہونا دلائل کے مجموعہ و قرائن حالات سے معلوم ہو تو اس کی پیروی کرنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔یہی موالک کا استصلاح اور احناف کا استحسان ہے۔ اور متذکرہ بالا شرائط کے ساتھ یتیم کا مسئلہ یقینا ایک ’’مقصد شرعی‘‘ بن جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

ایک علمی اور فقہی جائزہ (۵)

مقالہ نگار: پروفیسر حافظ احمد یارؒ

ضمیمہ   ج

        یہ مقالہ ۵۴۔۱۹۵۳ء میں ایم اے اسلامیات کے ایک پرچے کے طور پر امتحانی ضرورت کے ماتحت لکھا گیا  تھا۔ آج چالیس برس کے بعد شائع کرتے وقت اسے تازہ ترین  (up-to-date)کرنے کے لیے بعض وضاحتیں ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو معمولی وضاحتیں ہیں جن کو اصل مقالہ میں تعلیقات و حواشی کی شکل میں بھی جگہ دی جاسکتی تھی۔ لیکن علمی دیانتداری کے پیش نظر مناسب معلوم ہوا کہ مقالے کو تو (بعض منشیانہ اغلاط کی درستی کے علاوہ)جوں کا توں ہی چھاپا جائے۔یہ راقم الحروف کے زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے اوراس میں عبارت اور اسلوب کی بعض طالب علمانہ خامیاں موجود ہیں (مثلاً کئی جگہ ضمیر واحد متکلم کااستعمال یا طریق حوالہ میں بعض کوتاہیاں)تاہم ان سے اصل نفس مقالہ پر‘اس کے استدلال اور طریق استنباط پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

4      ان معمولی ایک دو سطری وضاحتوں کے علاوہ بعض ایسی اضافی معلومات ہیں جن کا تعلق مقالہ ہی کے کسی حصے سے ہے   ---- تاہم اس ملحق یا ضمیمہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ۱۹۵۳ء سے اب تک یہ مسئلہ (جو موضوع مقالہ ہے)ان مسائل میں شامل رہا ہے جو ہماری دینی اور سیاسی زندگی میں اضطراب اور ہیجان کا باعث رہے ہیں۔ لہٰذا ’’تکملہ ‘‘کے طور پر اس مسئلہ کے بارے میں مختلف تبدیلیوں اور تغیرات (developments)کا ذکر بھی ضروری ہے‘ جو اس عرصے میں سامنے آئیں۔ تفصیل ان وضاحتوں‘اضافوں اور تکملہ کی یوں ہے:

4      مقالہ کے مقدمہ میں شعبہ علوم اسلامی (ابتداء میں شعبہ کا سرکاری نام بھی ’’اسلامیات ‘‘ہی تھا۔ اس زمانے کے یونیورسٹی کیلنڈر اور ہماری اسناد میں یہی نام درج ہے بعد میں اس کا انگریزی نام ’’اسلامک سٹڈیز‘‘ رکھا گیا جس کا ترجمہ عموماً ’’علوم اسلامیہ‘‘ کیا جاتا ہے۔ ویسے ’’علوم اسلامی‘‘ زیادہ خالص فارسی ترکیب ہے) کی ’’مختصر مگر جامع‘‘ لائبریری کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ شعبہ کا بالکل ابتدائی دور تھا۔ اس کی بنیاد ہمارے قابل صد احترام استاد اور صدر شعبہ علامہ علاؤ الدین صدیقی رحمہ اللہ نے ۱۹۵۰ء میں رکھی تھی (جن کو راقم نے مقدمہ مقالہ میں ’’مدظلہ‘‘ لکھا ہے اور جن کی وفات دسمبر۱۹۷۸ء میں ہوئی)۔اس وقت شعبہ اولڈ کیمپس میں واقع موجودہ ’’فائن آرٹس‘‘ کے شعبہ کے دو کمروں میں قائم تھا اور شعبہ کی لائبریری واقعی بہت ’’مختصر‘‘مگر جامع تھی۔ علامہ صاحب کے ذوق انتخاب نے اس لائبریری کو بڑی وسعت دی۔ ۱۹۶۱ء میں جب شعبہ اولڈ کیمپس میں ہی اپنی نو تعمیر کردہ عمارت میں منتقل ہوا تو یہ لائبریری خاصی بڑی ہوچکی تھی۔ ۱۹۸۷ء سے شعبہ شیخ زایداسلامک سنٹر (نیو کیمپس)کی شاندار عمارت میں بطور ادارہ  (institute)کام کررہا ہے اور اس کی لائبریری لاہور کی بہترین لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے اور ہمارے استاد محترم کے ہاتھ کا لگایا ہوا یہ پودا آج  ’’اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ ‘‘کا ایک مظہر ہے۔

4      مقالہ میں کئی جگہ اسلامی تاریخ کی تیرہ صدیوں یا ساڑھے تیرہ صدیوں کا ذکر آیا ہے۔ اب ہجری تاریخ کے لحاظ سے۱۴۱۳ھ ہے۔ مقالہ آج سے چالیس سال پہلے لکھا گیا تھا۔

4      مقالہ میں بعض مقامات کے پرانے (اس زمانے والے)نام لکھے گئے ہیں مثلاً منٹگمری (جواب ساہیوال کہلاتا ہے)اور کیمبل پور (جو اب اٹک ہے)۔ ان مقامات کے نئے نام وہی ہیں جو دراصل انگریزوں سے پہلے ان کے نام تھے۔

4      رسالہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ کا ذکر مختلف حوالوں سے کراچی سے شائع ہونے والے رسالے کے طور پر آیا ہے۔ غالباً ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ یہ ادارہ ۲۵۔ بی گلبرگ لاہور میں آگیا تھا اور یہ رسالہ اب یہاں سے نکلتا ہے۔ اس کے بانی مدیر غلام احمد پرویز صاحب تھے۔

4      ہمارے اس مقالہ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صورت مسئلہ پر فقہ حنفی اور فقہ جعفری (سنی شیعہ)ہر دو کے موقف ‘اس کی بنیاد اور ان کے طریق استدلال سے بحث کی گئی ہے۔ اس پر سنی شیعہ اختلاف کے ساتھ ساتھ ایسی مثالیں (وراثت کی)بھی پیش کی گئی ہیں جہاں طریق استدلال کے فرق کے باوجود نتیجہ (حل مسئلہ)ایک ہی نکلتا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ یہ مقالہ اہل السنت اور اہل تشیع دونوں کو اس مسئلے پر ایک دوسرے کا موقف سمجھنے میں مدد دے گا۔ بلکہ اس سے اس مسئلہ پرامت کے اتفاق اور اجماع کی وجہ بھی معلوم ہوگی۔

4      راقم الحروف نے مقالہ کے مقدمہ میں اس مسئلہ پرتحقیق کا محرک تو تحصیلدار صاحب والا واقعہ بیان کیا ہے۔ تاہم جب میں مقالہ لکھنے کے لیے اور اپنے ذہن کو آمادہ کرنے کے لیے ابتدائی مطالعہ میں مصروف تھا اور مسئلہ کے ’’قدیم پہلو‘‘(یعنی فقہائے متقدمین کے مطابق صورت مسئلہ کے فہم)کو واضح کرنے کی کوشش میں لگا تو مجھے اس کے لیے شیعہ سنی ہر دو کی فقہ فرائض کے مطالعہ کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اپریل ۱۹۵۲ء کے ترجمان القرآن میں مولانا مودودی صاحب مرحوم و مغفور نے یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کی شرعی حقیقت پر ایک استفسار کے جواب میں یہ لکھ دیا کہ ’’----یہ مسئلہ فقہاء اسلام میں متفقہ چلا آتا ہے او رجہاں تک مجھے معلوم ہے اس میں شیعوں کے سوا کسی نے اختلاف نہیں کیا   ----الخ ‘‘مولانا مرحوم کا یہ لکھنا شیعہ فقہ فرائض سے لاعلمی پر مبنی تھا۔ چنانچہ ان ہی دنوں حافظ کفایت حسین صاحب مجتہد مرحوم نے بذریعہ اخبار مودودی صاحب مرحوم کے اس ’’الزام‘‘ کی تردید کی اور بتایا کہ ’’شیعہ کے مطابق تو پھوپھی بھی اپنے یتیم بھتیجے کو محجوب کرتی ہے ‘‘۔مقالہ نگار نے اس سلسلے میں حافظ صاحب مرحوم سے ان کے گھر پر ملاقات کرکے ان سے اس مسئلہ پر شیعہ موقف سمجھنے کے لیے اہم کتابیات کی فہرست بھی لی تھی۔ مقالہ کے حصہ اول خصوصاً باب پنجم ’’مقامِ حیرت‘‘ کے مطالعہ سے ساری بات واضح ہوجاتی ہے۔ غالباً اس مسئلہ پر شیعہ سنی (بلکہ پوری امت کے )موقف کی یکسانیت کا یہ ’’بارگراں‘‘ہی متجددین حضرات کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا تھا۔

4      مولانا حافظ اسلم جے راج پوری صاحب کے مقالہ ’’محجوب الارث‘‘ کے جون جولائی ۱۹۸۱ء کے رسالہ معارف اعظم گڑھ میں اور پھر ادارہ طلوع اسلام کی کتاب ’’تین اہم مسائل ‘‘میں شائع ہونے کا ذکر مقالہ میں ہوا ہے۔ اس کے بعد پنجاب  لیجسلیٹو اسمبلی کی اس مسئلہ پر شائع کردہ پبلک آراء (Opinions)میں بھی یہ مقالہ ’’ادارہ طلوع اسلام‘‘ ہی کے ایک وضاحتی مضمون کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ پھر یہی مقالہ ہفت روزہ ’’چٹان‘‘۷ اور ۱۴ مارچ ۱۹۵۴ء میں شائع کرایا گیا تھا۔ (یہ اشاعتی حوالے اس لیے دیے گئے ہیں کہ جو حضرات اس مقالے کا مطالعہ کرنا چاہیں ان کو اس کے حصول میں آسانی ہو) ۔جیرا جپوری صاحب نے اپنے اس مقالہ میں یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کے مسئلہ کے علاوہ حنفی فقہ فرائض پر کچھ مزید اعتراضات بھی کیے ہیں (مودودی صاحب مرحوم کی طرح غالباً جیراجپوری صاحب کی نظر بھی جعفری فقہ فرائض پر نہیں تھی۔ جس کا ثبوت ان کا ’’دادا کا اپنے پوتے کا وارث بننا‘‘والی مثال پیش کرتا ہے۔ جو شیعہ کا موقف نہیں ہے)۔ مولانا جیراجپوری صاحب کے اس مقالہ میں جتنا حصہ ’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ‘‘ سے متعلق تھا اس پر ہم مقالے میں بحث کر چکے ہیں (دیکھئے مقالہ کا دوسرا حصہ باب دوم)باقی مسائل ہمارے لیے غیر متعلق تھے۔ اس لیے ہم ان کی تفصیل میں نہیں گئے تھے۔ البتہ مختصراً ان مسائل میں بعض کلیات کے متصادم ہونے‘یا ان کے مختلف مذاہب فقہ کے درمیان متنازعہ فیہ ہونے کا ذکر کر دیا تھا (دیکھئے مقالہ کے دوسرے حصے میں باب دوم کی فصل اول)مولانا جیراجپوری صاحب کا یہ مقالہ بڑے علمی اور فقہی انداز میں لکھا گیا ہے ‘لہٰذا اہل علم حضرات کے پڑھنے اور غور کرنے کی چیز ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اہل علم کس طرح غلط فہمیوں کا شکار ہوتے ہیں اور کس طرح مغالطے دیتے ہیں۔

4      مقالہ میں ’’سید غلام احمد بی اے پلیڈر منٹگمری ‘‘کے مختصر سے پمفلٹ ’’یتیم پوتے کا حق وراثت‘‘ کا ذکر آیا ہے۔ کتابیات میں بھی اور ایک دو نکات کی عمدہ وضاحت کے ضمن میں مقالہ کے اندر بطور حوالہ بھی  --- بعد میں سید صاحب گوجرانوالہ میں ’’سید غلام احمد رضوی ایڈووکیٹ‘‘ کے معروف نام اور لقب سے پریکٹس کرنے لگے۔ انہوں نے محمد اقبال چیمہ صاحب کے مجوزہ ترمیمی بل (جس کا ہمارے مقالہ میں بھی ذکر آیا ہے)کے علاوہ   ---- اس زمانے میں اس موضوع پر اخبارات میں شائع ہونے والے بعض مضامین (اور خطوط)کے جواب میں بھی مضمون لکھے (جو اخبارات میں بھی چھپتے رہے)اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے مولانا اسلم جیراجپوری صاحب کے مقالہ ’’محجوب الارث‘‘ میں بیان کردہ تمام مثالوں سے مفصل بحث کی ہے (جن سے ہم نے موضوع مقالہ سے غیر متعلق ہونے کی بناء پر تعرض نہیں کیا تھا)اور ان مثالوں میں پوشیدہ غلط فہمیوں کو واشگاف کیا ہے اور یہ جیراجپوری صاحب کے مقالہ کا نہایت عمدہ قانونی اور فقہی محاسبہ ہے۔ سید غلام احمد صاحب کے یہ جملہ ’’مضامین‘‘ اب کتابی شکل میں اپنے اسی ابتدائی عنوان ’’یتیم پوتے کاحق وراثت ‘‘کے ساتھ انجمن خدام القرآن ماڈل ٹاؤن لاہور نے شائع کر دیے ہیں۔ احقاقِ حق اور طلب ِتحقیق کا تقاضا ہے کہ اہل علم ان دونوں رسالوں کا مطالعہ کریں۔ یہ تقابلی مطالعہ مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوگا اور ان کے مطالعہ کے لیے ہم نے ’’اہل علم‘‘ کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ یہ دونوں رسائل فنی اور قانونی ہیں ‘لہٰذا وہ مطلق کسی مڈل میٹرک پاس ’’عوامی‘‘ کے پڑھنے کی چیز نہیں ہیں۔ فقہ اور قانون سے واقف آدمی ہی ان دونوں کتابچوں کو پڑھ کر خطا اور صواب میں تمیز کرسکتا ہے۔

4      مقالہ کے دوسرے حصے کے باب سوم میں ’’وجوب وصیت‘‘اور ’’آیتہ الوصیتہ‘‘ کے نسخ اور عدم نسخ پر بات کی گئی ہے۔ یہاں اس مضمون کو ایک عملی مثال کے ذریعے سمجھانے کے لیے مندرجہ ذیل معلومات کا اضافہ مناسب معلوم ہوتا ہے:

        حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒنے ’’الفوز الکبیر‘‘میں نسخ فی القرآن پر بحث کرتے ہوئے السیوطی ؒکی ’’الاتقان‘‘ کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے ۲۱ آیات کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اس پر شاہ صاحبؒ نے تعقبات کیے اور ۱۵۔۱۶ آیات (ناسخ منسوخ) میں تطبیق کی صورت پیدا کردی اور صرف پانچ آیات کو ’’واقعی منسوخ‘‘ قرار دیا۔ ان میں سے ایک یہ آیت الوصیتہ (البقرہ:۱۸۰) بھی ہے۔ ہمارے استاذ مکرم علامہ علاؤ الدین صدیقی مرحوم اپنے استاد مولانا احمد علی لاہوریؒ کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے ان پانچ آیات میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کردی تھی اور یوں ان کے نزدیک قرآن کریم کی کوئی آیت نسخ کی اصطلاحی تعریف (کسی حکم کا ہمیشہ کے لیے ہر شخص کے لیے ختم ہوجانا)کے لحاظ سے منسوخ نہیں ہے  ----مولانا سندھی ؒکہتے تھے کہ ’’باقی لوگوں کے لیے یہ آیت منسوخ ہوگی مگر ’’عبید اللہ‘‘ پر تو اسی آیت کی رو سے اپنی والدہ کے لیے وصیت کرنا واجب ہے ‘‘----مولانا ایک سکھ کنبہ سے مسلمان ہوئے تھے مگر ان کی والدہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ وہ اپنی والدہ کو بڑے احترام سے ساتھ رکھتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی والدہ کی فرمائش پر مولانا احمد علی لاہوری ؒکو (جو مولانا سندھی کے عزیز اور تلامذہ میں سے بھی تھے)’’ہر دوار یاترا‘‘کے لیے اپنی والدہ کے ہمراہ بھیجا تھا۔اب چونکہ ان کی والدہ غیر مسلم ہونے کے باعث بیٹے کی وراثت سے حصہ نہیں پاسکتی تھیں۔ اس لیے مولانا سندھی ؒاس آیت کی رو سے اپنے لیے وصیت برائے والدہ واجب سمجھتے تھے اور بات بھی درست تھی۔

4      اب ہم مقالہ کے تکملہ کے طور پر ان حالات و واقعات اور قانونی اقدامات کا ذکر کریں گے جو ۱۹۵۳ء کے بعد سے اب تک ظہور پذیر ہوئے اور جن کا ’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ‘‘ سے تعلق ہے۔

        ہم اپنے مقالہ میں ۱۸۔۱۹۱۷ء کے امرتسری مباحث‘پنجاب میں ۱۹۴۸ء میں قانون شریعت

West Panjab Muslim Personal Law (Shariat) Aplication Act. (Act IX of 1948).

کے نفاذ اور پھر دسمبر ۱۹۵۳ء میں پنجاب اسمبلی میں اس قانون کے اندر ترمیم کے لیے ایک بل (Bill No 8 of 1953) پیش کیے جانے تک کی بحث کر چکے ہیں۔ اب ہم اس سے آگے چلیں گے۔

        راقم الحروف اس ’’تکملہ‘‘ میں پیش کیے جانے والے مواد کے لیے اپنے تلمیذ عزیز پروفیسر قاری محمد طاہر صاحب فیصل آباد کا ممنون اور شکرگزار ہے ‘کیونکہ اس کا بیشتر حصہ ان کی زیر طبع کتاب ’’مسلم عائلی قوانین کا منظر اور پس منظر‘‘کے مسودہ سے لیاگیا ہے۔ فجزاہ اللہ خیرا۔

4      جیسا کہ ابھی آگے بیان ہوگا ۱۹۵۵ء سے ’’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ ‘‘بھی عائلی قوانین کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس مسئلے کے قانونی حل کی تاریخ پاکستان میں عائلی قوانین کی تاریخ کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔ اس لیے اب موضوع بحث عائلی قوانین بھی ہوں گے۔ اگرچہ ویسے عائلی قوانین ہمارے دائرہ بحث سے خارج ہیں۔ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ وراثت کا یہ مسئلہ جس کا تعلق اسلام کے قانون وراثت اور وصیت سے تھا اسے نکاح طلاق کے مسائل کے ساتھ کیوں منسلک کیا گیا؟ چوہدری محمد اقبال چیمہ صاحب کی مجوزہ ترمیم کم از کم قانون وراثت سے ہی متعلق تھی‘ یعنی موضوع سے غیر متعلق نہیں تھی جب کہ ازدواج اور نکاح طلاق کے مسائل میں وراثت کے خاص اس مسئلے کو لے آنا عجیب سا لگتا ہے۔ البتہ صورت مسئلہ میں ایک مناسبت ضرور تھی کہ یتیم پوتا بھی ’’مظلوم‘‘ اور ازدواجی زندگی کے مسائل کا شکار عورت بھی مظلوم تھی اور ان دونوں موضوعات میں ’’مظلومیت ‘‘کا یہ عنصر طالع آزما لوگوں کے لیے جذبات کے استحصال اور اشتعال کا ایک نہایت کارگر حربہ ثابت ہوسکتا تھا (اور ہوا)آخر کمیونزم بھی تو پیچارے محنت کشوں اور ’’مظلوم ‘‘مزدوروں کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے ہی اٹھا اور چھا گیا تھا اور ستر سال تک ایسا چھایا رہا کہ پھر کسی بھوکے کو رونے بھی نہیں دیا جاتا تھا۔

        بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اب ہم اپنے موضوع یعنی پاکستان میں ’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ‘‘ پر بحث مباحثہ اور قانون سازی وغیرہ سے متعلق گزشتہ چالیس برس کے واقعات اور اقدامات کا ذکر کریں گے۔

4      ربط مضمون کے لیے بات دسمبر۱۹۵۳ء سے شروع کرنا مناسب ہے جس کا کچھ حصہ پہلے مقالہ میں مذکور ہوا تھا --- دسمبر۱۹۵۳ء میں چوہدری محمد اقبال چیمہ صاحب نے پنجاب اسمبلی میں جب اپنا ترمیمی بل (بل نمبر۸سال ۱۹۵۳ء )پیش کیا تو اسمبلی نے اس مسئلہ پر صوبہ کے تمام اعلیٰ ججوں‘سرکاری محکموں کے سربراہوں‘ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں‘ سول ججوں‘ ڈپٹی کمشنروں اور دوسرے ضلعی افسروں‘ میونسپل کمیٹیوں ‘ڈسٹرکٹ بورڈوں (جو اب ڈسٹرکٹ کونسل کہلاتے ہیں)پبلک تنظیموں‘انجمنوں ‘اداروں اور دینی مدرسوں کے علاوہ پبلک سے انفرادی آراء بھی طلب کیں۔ یہ آراء (جن کے مقالہ میں حوالے بھی ہیں)۱۲ صفحہ کے ایک ضمیمہ( (Supplementسمیت کل۱۳۲صفحات پر مشتمل ایک ’’رجسٹر نما‘‘کتاب کی صورت میں ۱۷فروری اور ۲۲ فروری ۱۹۵۴ء کو شائع کی گئی تھیں۔ ان آراء کا مطالعہ (جو بعض اردو میں ہیں اور بعض انگریزی میں)اپنے اندر عبرت اور موعظت کا سامان رکھتا ہے۔ ان میں نہایت سنجیدہ اور قابل قدر علمی آراء بھی ہیں اور انتہائی جاہلانہ اور بعض ’’فدویانہ‘‘ آراء بھی ہیں۔ آج کل یہ مطبوعہ آراء کہیں نہیں مل سکتی ہوں گی (غالباً پنجاب اسمبلی کی لائبریری یا بعض دیگر معیاری لائبریریوں میں موجود ہوں گی)کیونکہ اس پر ’’صرف ارکان اسمبلی کے استعمال کے لیے‘‘ لکھا گیا تھا۔ ان آراء کے مطالعہ سے بے اختیار رسول اللہ کی وہ حدیث یاد آتی ہے (جسے ہم نے مقالہ کے شروع ---- مقدمہ اور تمہید۔ میں بھی بیان کیا ہے)کہ ’’إنہ أول علم ینزع من أمتی‘‘(یہی علم سب سے پہلے میری اُمت سے اٹھا لیا جائے گا)----بہرحال اگر کسی آدمی کو یہ آراء (جن کا پورا سرکاری نام مقالہ کے آخر پر کتابیات میں دیا گیا ہے)مل سکیں تو ہم مولانا اسلم جیراجپوری صاحب کے مقالہ ’’محجوب الارث‘‘ اور سید غلام احمد رضوی کے کتابچہ ’’یتیم پوتے کا حق وراثت‘‘ کے ساتھ ان پبلک آراء (Opinions)کے مطالعہ کو بھی نفس موضوع پر مزید مطالعہ(For further reading)کے طور پر پڑھنے کی سفارش کرتے ہیں۔

4      ہمارا خیال ہے کہ کسی بھی متنازعہ اور مختلف فیہ مسئلہ پر محض یکطرفہ مطالعہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ موافق اور مخالف دونوں قسم کا لٹریچر پڑھنا چاہیے:{ لِّيَهْلِكَ مَنْ  هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ  ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ    }(الانفال)’’تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل سے (اتمام حجت کے بعد)ہلاک ہو اور جو جیے تو دلیل سے (حق پہچان کر)جیے اور اللہ تعالیٰ تو ضرور سب کچھ سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

        اگر صاف نیت اور طلب حق کے ارادے سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

4      بہرحال چیمہ صاحب کا یہ ترمیمی بل اسمبلی سے نہ منظور ہوا اور نہ ہی نامنظور ‘یعنی یہ پہلا ٹیسٹ غیر فیصلہ کن(Draw) رہا ‘فریقین کی تیاریاں دھری رہ گئیں اور معاملے کو التواء میں ڈال کر رفع دفع کر دیا گیا۔ اس التواء اور رفع دفع کرنے کے اسباب و عوامل کیا تھے یہ ایک رازہی رہا غالباً اس زمانے کے ارکان پنجاب اسمبلی اس کی وجوہ سے واقف ہوں گے۔ اس بل کے پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے سے ’’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ اربا بِ سیاست کے لیے ایک نیا ’’کھلونا‘‘یاشوشہ(issue)ثابت ہوا۔ اپوزیشن اسے اپنے سیاسی فوائد کے نقطہ نظر سے دیکھنے لگی اور سرکاری بنچ اپنے مفادات اور اپنی برتری کے نقطہ نظر سے  ----اب سوال حق و باطل اور خطا و صواب کا نہیں بلکہ ہار اور جیت کا تھا۔

4      اس کے بعد۱۹۵۵ٗمیں یہ واقعہ پیش آیا کہ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا صاحب نے اپنی بیوی حمیدہ بانوکے ہوتے ہوئے اپنی ایک عرب نژاد سیکرٹری عالیہ سے شادی کرلی۔ ان کے سیاسی حریفوں کو وزیر اعظم پر تنقید کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا۔ مغرب گزیدہ حلقوں نے بھی مخالفوں کا ساتھ دیا اور لیڈر ٹائپ خواتین کو عورت کی مظلومیت کا رونا رونے کا خوب موقع ملا۔ ان واقعات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے ۱۴ اگست۱۹۵۵ء کو ایک ’’شادی اور عائلی قوانین کا کمیشن ‘‘مقرر کیا جس کا سرکاری نام تھا۔

"   Comission on Marriage and Family Laws"

اور جسے ہم آئندہ مختصراً ’’عائلی کمیشن‘‘ ہی کہیں گے۔ اس کے پہلے صدر ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین مرحوم نامزد ہوئے تھے اور ارکان میں تین مرد اور تین خواتین تھیں ۔مرد اراکین میں ایک عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم شامل تھے۔

4      اس کمیشن نے ایک سوالنامہ تیار کیا جو اردو‘انگریزی اور بنگالی میں شائع کرایا گیا اور دانشوروں‘علماء اور عوام سے اس سوالنامہ کی روشنی میں آراء طلب کی گئیں۔ کمیشن نے ۹موضوعات پر پچاس کے قریب سوالات مرتب کیے تھے۔ ان میں سے باقی سوالات کا تعلق تو نکاح‘طلاق وغیرہ سے تھا۔ ہمارے موضوع سے متعلق اس میں یہ چیز تھی کہ وراثت اور وصیت سے متعلق پانچ سوال بھی اس سوالنامہ میں شامل تھے۔ ان میں سے بھی تین سوالات کا تعلق تو عدالتی طریق کار سے تھا۔ البتہ دو سوال براہِ راست قانونِ وراثت سے متعلق تھے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ ’’کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ اگر پاکستان کے کسی حصے میں ابھی تک قانون وراثت اور وصیت کے بارے میں شرعی قوانین پر عمل نہیں ہورہا تو بلا تاخیر ایسا قانون وضع کیا جائے کہ اس بارے میں شرعی قوانین ہرحصہ ملک میں نافذ ہوں۔‘‘

        معلوم نہیں اس سوال کے جواب میں کمیشن کو کون سی آراء موصول ہوئیں۔ بہرحال جیسا کہ ہم نے اپنے مقالہ میں لکھا ہے۔ اسلامی قانون وراثت اور قانون وصیت کا بیک وقت نفاذ نہ صرف یتامی بلکہ کئی دیگر مستحق غیر وارثوں کے مسائل کا نہایت عمدہ اور ٹھیک اسلامی حل تھا۔ مگر نامعلوم وجوہ کی بناء پر کمیشن نے اپنی سفارشات میں اس اصل اسلامی ’’حل‘‘ پر توجہ ہی نہ دی۔ اس کے عوامل بھی صیغہ راز ہی میں رہے۔

4      کمیشن کے اس سوالنامے میں تیسرا سوال یہ تھا ----’’کیا قرآن کریم میں نص صریح موجود ہے ‘ یا کسی صحیح حدیث میں یہ تعلیم ملتی ہے کہ یتیم پوتے یا پوتی یا نواسے یانواسی کو محروم الارث کر دیا جائے۔‘‘

        اس سوال کا تعلق براہِ راست ہمارے زیر بحث مسئلہ سے تھا مگر اس سوال کی عبارت یا تو اس قسم کی غلط فہمی پر مبنی ہے جس میں ہمارے تحصیلدار صاحب مبتلا تھے (دیکھئے مقالہ کا مقدمہ)اور یا پھر یہ ایک منطقی مغالطہ (Fallacy)پر مبنی ہے جسے مناظروںمیں فریق ثانی کو زچ کرنے کے لیے اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور جس سے بعض دفعہ وکلاء بھی کسی عدالتی اور قانونی چال میں کام لیتے ہیں۔

4      بعض سوالوں کے جواب دو ٹوک(Categorically)’’ہاں‘‘یا ’’نہیں‘‘میں (غیر مشروط طور پر)نہیں دیے جاسکتے۔ ذرا تفصیل درکار ہوتی ہے۔ یہ اس طرح کا سوال ہے جیسے آج کل بعض مے خوار ’’مسلمان‘‘ یہ کہتے ہیں کہ کیا قرآن میں کہیں شراب کو صریحاً (وہی بنص صریح)حرام کہا گیا ۔ اسی طرح جو لوگ فہم دین کے لیے حدیث یا سنت کی ضرورت کے منکر ہیں ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ’’کیا قرآن کریم میں کتے یا بندر (وغیرہ)کے گوشت کی حرمت پر کوئی نص صریح موجود ہے؟‘‘(جس طرح خنزیر کے بارے میں ہے)اگرچہ یہ حرمتیں صرف قرآن سے بھی ثابت کی جاسکتی ہیں مگر ذرا تفصیل میں جاکر--- مندرجہ بالا سوالوں کا دو ٹوک جواب دے کر نہیں۔

        جس طرح ریاضی (الجبرا جیومیٹری وغیرہ)کے مسائل کے ثبوت میں بعض دفعہ ایک مسئلہ ثابت کرتے ہوئے کوئی دوسرا مسئلہ خود بخود ثابت ہوجاتا ہے۔ اسی طرح قانونی (فقہی)احکام میں بھی بعض چیزیں براہ راست نہیں بلکہ کسی صریح حکم کے نفاذ یا اس پر عمل کا لازمی نتیجہ اور صریح تقاضا  (Corollary)ہوتی ہیں۔ ہم مقالہ میں اس پر بحث کر چکے ہیں کہ ’’یتیم پوتے کا محجوب الارث ہونا لازمی نتیجہ ہے قرآن کے قانون وراثت میں اصول نیابت کے بطور قاعدہ کلیہ کے ناممکن العمل ہونے کا۔‘‘(دیکھئے اصل مقالہ کا حصہ دوم باب پنجم)

        اس قسم کے سوال مرتب کرنے والے (ذہن)کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کا جواب یہ دے کہ ’’صریح حکم تو نہیں مگر----‘‘تو اسے کہہ دیا جائے ہمیں صرف یہی ’’نہیں‘‘ مطلوب تھی باقی ’’اگر مگر‘‘کی ضرورت نہیں (۱)

4      بہرحال اس سوالنامہ کے جوابات موصول ہونے پر کمیشن نے حکومت کو جو سفارشات پیش کیں اس میں کہا گیا تھا کہ ’’کمیشن کی رائے میں یتیم پوتا اپنے دادا کی وراثت میں برابر کا حقدار ہے اس کو اس حق سے ہرگز محروم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم نے ان سفارشات پر (باقی سفارشات کا تعلق تو نکاح طلاق ازدواج وغیرہ سے تھا)اپنا طویل وضاحتی اختلافی نوٹ لکھا تھا ‘اس میں اس مسئلہ پر بھی ان کا موقف فقہاء متقدمین والا ہی تھا --- انہوں نے کمیشن کی سفارشات کو من حیث المجموع {اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ}کی عملی تفسیر قرار دیا تھا۔ کمیشن کی اصل رپورٹ کا گزٹ نوٹیفکیشن ۲۰جون۱۹۵۶ء کو آیا تھا۔ جبکہ مولانا تھانوی کے اختلافی نوٹ (جو خاصا طویل تھا)کا گزٹ ۳۰ جون۱۹۵۶ء کو آیا۔ اس کے چھاپنے میں یہ تاخیر خود حکومت نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر کی تھی۔

        عائلی کمیشن کی سفارشات سامنے آئیں تو علماء کی اکثریت اور ان کے تابع اثر عوام کی طرف سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا۔ حکومت ان سفارشات کو قانوناً نافذ کرنے کی جرات نہ کرسکی (حکومت کا سیاسی عدم استحکام بھی اس کا باعث بنا)اس کی بجائے حکومت نے ٹالنے اور وقت گزارنے کے لیے ایک ’’اسلامک لاء کمیشن‘‘ قائم کیاجو عائلی سفارشات کا بھی جائزہ لے گا۔ اس کمیشن کا ابھی شاید ایک آدھ اجلاس ہی ہوا تھا کہ ۷ اکتوبر۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان آئین اور جمہوریت کی بساط لپیٹ کر بذریعہ مارشل لاء ملک پر مسلط ہوگئے۔

4      مارشل لاء کے ابتدائی دنوں میں کمیشن کی سفارشات سے توجہ ہٹ گئی تھی۔ چونکہ آئین ہی منسوخ کر دیا گیا تھا لہٰذا یہ سمجھا گیا کہ شاید یہ سفارشات بھی کالعدم ہوگئی ہوں گی ۔ تاہم ۱۹۵۹ء میں ’’اپوا‘‘(انجمن بیگمات پاکستان) کی طرف سے عائلی کمیشن کی سفارشات کو عملاً (قانوناً)نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جس کی تجدد پسند حلقوں اور جرائد نے بھی حمایت کی ---- ’’جابر سلطان ‘‘کے سامنے صنف نازک کا یہ ’’کلمہ حق‘‘ علت سے خالی نہیں تھا  ----ایوب خاں خود بھی بے دین (Secular)ذہن رکھتے تھے اور شاید کمال پاشا کی طرح وہ تجدد کا تاج بھی اپنے سر پر رکھنا چاہتے تھے۔ بہرحال ’’اپوا‘‘کے اس مطالبے کے پیش نظر ۲مارچ ۱۹۶۱ء کو ’’مسلم فیملی لاز (عائلی قوانین)آرڈی نینس‘‘ کا صدارتی حکم جاری ہوا۔ جس میں کمیشن کی سفارشات کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔اس کا پورا سرکاری نام (Muslim Family Laws Ordinance (VIII of 1961)ہے۔ بعض انتظامی امور کی وجہ سے اس کا نفاذ موخر کر دیا گیا۔ بالآخر آرڈیننس کا عملاً نفاذ ۱۵جولائی۱۹۶۱ء سے ہوا ۔ اس وقت سے اب تک یہ قوانین پاکستان میں جاری چلے آتے ہیں۔

        اس آرڈی نینس کی دفعہ نمبر۴میں یتیم پوتے کی وراثت کا قانون حسب ذیل الفاظ میں بیان ہوا ہے:

4. Succession- In the event of the death of any son or daughter of the propositus before the opening of succession, the children of such son or daughter, if any, living at the time the succession opens, shall per stirpes receive a share equivalent to the share which such son or daughter, as the case may be, would have received, if alive.

جس کا اردو ترجمہ (جوعدالتوں اور وکلاء کے لیے سند ہے)یوں کیا گیا ہے:

        ’’وراثت کے اجراء (شروع ہونے)سے قبل مورث کے کسی بیٹے یا بیٹی کی موت کی صورت میں ایسے بیٹے یا بیٹی کی اولاد‘اگر ہو‘جو وراثت شروع ہونے پر زندہ ہوں بحصہ رسدی (علی النسب)اس حصہ کے برابر پائیں گے جو ایسا بیٹا یا بیٹی اگر زندہ ہوتے تو پاتے۔‘‘

        ہم اس دفعہ کے الفاظ کے انتخاب‘ان کے قانونی مضمرات اور اس قانون کی قرآن سے موافقت یا اس کی مخالفت وغیرہ پر آگے چل کر تبصرہ کریں گے۔ پہلے ذرا ہم اس مسئلہ کی (بلکہ قانون کی)سیاسی تاریخ کو مکمل کر لینا چاہتے ہیں۔

4      عائلی کمیشن کی سفارشات کو اس طرح بذریعہ آر ڈی نینس نافذ کرنے پر بھی دو طرح کا رد عمل سامنے آیا۔ تجدد پسند طبقوں نے اس کی تائید اور حمایت کی۔ ان میں بعض علماء اور وکلاء کے علاوہ ’’اپوا‘‘اور ادارہ طلوع اسلام پیش پیش تھے۔ طلوع اسلام نے تو اسے اپنی عظیم فتح سمجھا اور اس فتح کے نشے میں ۲مارچ ۱۹۶۱ء (آرڈیننس کے اجراء کی تاریخ)کو اسلام کی تاریخ کا ’’نوروز‘‘تک قرار دیا اور اپریل ۱۹۶۱ء میں ادارہ نے اپنے کنونشن کو اس خوشی کے جشن کے طور پر منایا۔ اس پر صدر ایوب خان کو ہدیہ تبریک پیش کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ چودہ سو سال کے بعد اُمت نے پہلی دفعہ قرآن کی طرف رجوع کیا ہے۔ نیز دعویٰ کیا گیا کہ ’’عائلی قوانین کی کوئی ایک شق بھی قرآن کے خلاف نہیں ہے‘‘۔(باقی عائلی قوانین تو ہمارے دائرہ بحث سے خارج ہیں مگر یتیم پوتے والی دفعہ نمبر۴کی قرآنیت پراور اس سلسلے میں ادارہ طلوع اسلام کے کئی بار اپنے موقف کو بدلنے پر ہم آگے ذرا تفصیل سے لکھیں گے)حکومت میں شامل سیاستدانوں نے تو اس کی تعریف کرنی ہی تھی  ---- ان قوانین کے نفاذ کو صدر ایوب خان مرحوم کا عظیم اسلامی اور انقلابی کارنامہ قرار دیا گیا۔ دوسری طرف آرڈی نینس کے اجراء اور اس کے نفاذ کی درمیانی مدت میں ہی علماء نے اس پر شدید تنقید کی جس میں مولانا احتشام الحق تھانوی (جو عائلی کمیشن کے نامزد رکن رہے تھے)کے اختلافی نوٹ کی صدائے باز گشت بھی سنی گئی پنجاب کے چودہ (۱۴)علماء کے ایک بورڈ نے (جس میں بریلوی‘ دیوبندی‘ اہلحدیث اور شیعہ چاروں مکتب فکر کے علماء شامل تھے)متفقہ طور پر آرڈی نینس کی دفعات نمبر ۴‘۵‘۶‘۷‘ اور ۱۲کو خلاف شریعت قرار دیا (ان میں سے دفعہ نمبر ۴ہی یتیم پوتے کی وراثت سے متعلق تھی باقی دفعات کا ہماری بحث سے تعلق نہیں)۔ اس کے بعد سرحد کے چالیس (۴۰)علماء اور مشرقی پاکستان کے چوراسی (۸۴)علماء نے بھی ان قوانین کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ بعض تنظیموں (مثلاً جماعت اسلامی)اور ممتاز اہل علم (مثلاً مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم۔ کراچی)نے اپنی طرف سے متبادل اصلاحی تجاویز بھی حکومت کو پیش کی تھیں (جو یتیم پوتے کے مسئلہ کے ٹھیک اسلامی حل کوبھی محیط تھیں)۔ مگر حکومت نے بعض جابرانہ اقدامات (مثلاً پریس آرڈی نینس کا اجراء )اور اعلانات کا راستہ اختیار کیا۔

4      مگر اس سے عائلی قوانین کے خلاف ملک کے اندر اٹھنے والی اضطرابی لہر سیاستدانوں کے لیے ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘والی بات ثابت ہوئی۔ انہوں نے اس مسئلہ کی گونج اسمبلیوں تک پہنچا دی۔

        ۱۹۶۲ء میں مغربی پاکستان صوبائی اسمبلی میں عائلی قوانین کی تنسیخ کے بارے میں ایک قرار داد پیش ہوئی جس کے محرک رکن صوبائی اسمبلی مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم تھے ۔اس کے بعد اس سال پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں عائلی قوانین کی تنسیخ کابل مشرقی پاکستان کے رکن اسمبلی عباس علی خان کی طرف سے پیش کیا گیا۔ اس پر ایک دفعہ پھر ملک کے طول و عرض میں اضطرابی لہر دوڑ گئی۔ تقریر اور تحریر کے علاوہ مظاہروں کا سہارا بھی لیا گیا (مثلاً ’’اپوا‘‘کے زیر اہتمام ۴جولائی۱۹۶۲ء کو اسمبلی کے سامنے خواتین کا اس مجوزہ بل کے خلاف مظاہرہ)یہ بل موافقت اور مخالفت کی بھر پور بحث اور تقریروں کے بعد رائے شماری کے نتیجے میں ۴اکتوبر ۱۹۶۲ء کو نامنظور ہو گیا۔

4      بل تو نامنظور ہوا مگر اس نے موافق مخالف جذبات میں خوب شدت پیدا کی۔ جس کے نتائج ۱۹۶۴ء میں ہونے والے عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوئے۔ ان انتخابات میں متحدہ حزب اختلاف نے برسراقتدار آنے کی صورت میں عائلی قوانین کی تنسیخ کو بھی اپنے منشور میں شامل کر لیا۔ مسئلے کے سیاسی اثرات اور سرکاری اقدامات کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنرل ایوب خان مرحوم کو غالباً عوامی رد عمل اور اسمبلی کے اندر اور باہر عائلی قوانین کی شدید مخالفت اور رد عمل میں اپنا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آیا تو انہوں نے اپنے سابقہ جابرانہ موقف سے کچھ پسپائی اختیار کی اور اعلان کیا کہ ’’یہ قوانین نہ وحی آسمانی ہیں نہ حرف آخر۔ قومی نمائندے اگر چاہیں تو ان قوانین کو کثرت آراء سے منسوخ کرسکتے ہیں‘‘----پھر جب ۱۹۶۴ء کے عام انتخابات میں حزب اختلاف نے عائلی قوانین کی تنسیخ کو اپنے منشور میں شامل کرکے اسے اپنی انتخابی مہم میں ایک کارگر حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہا تو حکومت کی طرف سے بھی یہ تاثر دیا گیا کہ ’’مرکزی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ایک مسودہ قانون پیش کیا جائے گا جس کے ذریعے عائلی قوانین کی ان تمام دفعات کو جو اسلام سے متصادم ہیں کالعدم قرار دیا جائے گا‘‘---تاہم حکومت کی یہ پسپائی وقتی اور سیاسی ہی تھی ‘الیکشن کے بعد عائلی قوانین جوں کے توں رہے۔

        ۱۹۶۴ء کے بعد ان قوانین پر بحث میں وہ گرما گرمی نہ رہی جس کی ایک وجہ غالباً ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ بھی تھی۔ جس نے بعض نئے موضوعات کو جنم دیا۔ جن کے سامنے یہ مسئلہ دب گیا۔ تاہم ۱۹۶۸ء میں جب صدر ایوب خان کے خلاف غم و غصہ کی لہراٹھی اور سیاستدانوں نے عوام کے جذبات کو خوب بھڑکایا۔ تو حکومت کے خلاف اس تحریک میں دوسرے عوامل کے علاوہ ’’حکومت کے دامن پر عائلی قوانین کا الزام ‘‘بھی شامل تھا۔ جس کا اظہار تحریک کے دوران مختلف جلسوں میں سیاستدانوں کی طرف سے تقاریر میں کیا گیا۔ اگر چہ خود یہ سیاستدان اس مسئلے کے بارے میں مخلص نہ تھے بلکہ وہ تو ’’روٹی ‘کپڑا اور مکان‘‘کے نعرے کی طرح‘اسے بھی صرف ایک کارڈ کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ تاہم شاید یہ کہنا نرا غلط بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی زندگی میں جنرل ایوب خاں مرحوم جیسے آمر کی مضبوط حکومت کے زوال میں عائلی قوانین کا بھی دخل ضرور تھا۔

4      صدر ایوب خان والے آئین کے مطابق یکم اگست ۱۹۶۳ء کو ’’اسلامی مشاورتی کونسل ‘‘کا قیام عمل میں آیا۔ اس کونسل کے پہلے صدر جسٹس ابو صالح محمد اکرم تھے۔ ان کے بعد علامہ علاؤ الدین صدیقی‘جسٹس حمود الرحمن‘ جسٹس محمد افضل چیمہ اور جسٹس تنزیل الرحمن صاحب یکے بعد دیگرے اس کے چیئرمین نامزد کیے گئے۔ ۱۹۷۳ء کے بھٹو مرحوم والے آئین کے تحت اس کونسل کا نام ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کردیا گیا۔ جس کے صدر ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ مقرر ہوئے تھے۔ اس کونسل (یا کونسلوں)کے اغراض و مقاصد میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ’’وہ حکومت کو ان اسلامی امور سے متعلق مشورہ دے گی یا راہنمائی کرے گی جو حکومت کی طرف سے پوچھے جائیں گے۔‘‘

4      حکومت کی مذکورہ بالا پسپائی یا سیاسی لچک کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ عائلی قوانین کے بارے میں (جن میں یتیم پوتے کی وراثت کا زیربحث مسئلہ بھی شامل تھا)حکومت کے ایماء پر کونسل نے اکتوبر ۱۹۶۴ء سے علامہ علاؤ الدین صدیقی کی زیر صدارت غور وخوض شروع کیا جو مارچ ۱۹۶۷ء تک جاری رہا اوردسمبر ۱۹۶۷ء میں کونسل نے اپنی سفارشات حکومت کو بھجوادیں۔ اس کے بعد جنوری ۱۹۶۹ء میں (جب صدر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوگئی تھی)وزارت قانون کی طرف سے صدر پاکستان کے ایماء پر کونسل کو دوبارہ ہدایت کی گئی کہ وہ عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴جس کا تعلق یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ سے ہے )اور دفعہ نمبر۶جو مسئلہ تعدد ازدواج سے متعلق ہے )پر دوبارہ غور کرکے رائے دے۔ کونسل نے اس سلسلے میں کارروائی مکمل کرکے ستمبر ۱۹۶۹ء میں اپنا جواب حکومت کو بھجوا دیا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ان (دونوں دفعہ کی)سفارشات میں کونسل نے خاص یتیم پوتے کی وراثت والی دفعہ نمبر(۴)کے معاملے میں کیا موقف اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً دس سال (جس میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دور بھی شامل تھا)اس مسئلے پر مکمل خاموشی رہی اور کسی مزید پیش رفت کے بغیر عائلی قوانین نافذ رہے۔

        ۵جولائی ۱۹۷۷ء کو جنرل ضیاء الحق صاحب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر مارشل لاء کے ذریعے مسلط ہوگئے۔ انہوں نے اگرچہ ملکی آئین کو روند ڈالا اور بعد میں ترامیم کے ذریعے اسے مسخ بھی کر دیا۔ تاہم انہوں نے ایوب خان اور یحییٰ خان کی طرح آئین مطلقاً منسوخ نہیں کیا اور بہت سے آئینی ادارے کام کرتے رہے۔ ان اداروں میں سے ایک ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ بھی تھی۔

        ۱۵نومبر ۱۹۷۸ء کو جنرل ضیاء الحق نے بطور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدایت کی کہ وہ تمام عائلی قوانین (جس میں یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ بھی شامل تھا)کا از سر نو جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے۔ اس حکم نامہ کے مطابق کونسل نے ۲۹جنوری ۱۹۷۹ئسے ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء تک غورو خوض کرنے کے بعد اپنی سفارشات ۳۰ اپریل ۱۹۷۹ء کو حکومت کو پیش کردیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ اس دفعہ کونسل کی سفارشات کیا تھیں اور خصوصاً عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴(جس کا تعلق ہمارے موضوع سے ہے)کے بارے میں کونسل نے کیا موقف اختیار کیا  ----لیکن اس عرصے میں ایک عجیب و غریب واقعہ ظہور پذیر ہوا۔

        کونسل کی سفارشات وصول ہونے کے بعد وزار ت قانون نے اپنے مراسلہ نمبر ۷۹/۲۲۸۹ مورخہ۵ جنوری ۱۹۸۰ء کے ذریعے یہ سخت فیصلہ سنا دیا (یا سفارش کردی)کہ عائلی قوانین مجریہ ۱۹۶۱ء تمام کے تمام قرآن و سنت کے منافی ہیں ‘لہٰذا ان کو مکمل طور پر منسوخ کر دیناچاہیے۔ مراسلہ کی عبارت یوں ہے:

The Muslim Family Laws Ordinance of 1961 is utterly un-Islamic. It is against the Holy Quran and Sunnah. It has dared to amend the Quranic Law to the extent of IRTIDAD and its existence is a Slur, a Blot on the religion, the name of Islam and our Islamic Country. Such a legislation or even its name need not be protected. Let us clean this blot altogather by its total Repeal...            

یعنی’’ مسلم عائلی قوانین تمام کے تمام غیر اسلامی ہیں۔ یہ کتاب و سنت کے منافی ہیں۔ ان کے ذریعے ارتداد کی حد تک قرآنی قوانین میں ترمیم کی جسارت کی گئی ہے یہ اور ان قوانین کاوجود مذہب اسلام اور ہمارے اسلامی ملک کے دامن پر ایک داغ اور (اسلام کے شفاف چہرے پر)ایک سیاہ دھبہ ہیں۔ ان قوانین کا نام و نشان بھی مٹا دینا چاہیے اور ان کو کاملاً منسوخ کرکے اس داغ کو صاف کر دینا چاہیے۔

4      وزارت قانون کے اس مراسلہ پر اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس منعقدہ کراچی (۱۷‘۱۸ جون۱۹۸۰ء)میں غور کیا اور یہ قرار داد منظور کی۔

        ’’اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے قبل ازیں مسلم عائلی قوانین میں ترامیم تجویز کی تھیں مگر وزارت امور مذہبی اور وزارت قانون دونوں کا خیال ہے کہ اس قانون کو سرے سے ختم کر دیا جائے۔ کونسل کو اس اقدام پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم کونسل کے تین اراکین بشمول خاتون رکن اس قانون کو مکمل طور پر ختم کرنے کی تجویز سے متفق نہیں ہیں اور وہ کونسل کی تجویز کردہ ترامیم کے حق میں ہیں ۔‘‘

        ہمیں معلوم نہیں کہ کونسل نے عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴(جو یتیم پوتے پوتی کی وراثت سے متعلق ہے)میں بھی کوئی ترمیم تجویز کی تھی یا نہیں اور اگر کی تھی تو وہ کس نوعیت کی تھی ---- تاہم کونسل نے جب وزارت قانون اور وزارت مذہبی امور کے مذکورہ بالا فیصلے سے اتفاق کر لیا تو اس کے بعد کونسل کی اپنی ترمیمی تجاویز کی ویسے بھی کچھ حیثیت باقی نہ رہی۔

4      اس کے بعد ۲۲ستمبر ۱۹۸۱ء کو کونسل نے از خود یہ سفارش پیش کی کہ’’ مسلم پرسنل لاء (عائلی قوانین)کو بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار (سماعت)میں شامل کر دیا جانا چاہیے ‘کیونکہ کونسل کی سابقہ سفارشات پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا (اور وزارت قانون کی سفارش یا فیصلے کو بھی نافذ یا قبول نہیں کیا گیا تھا)اگر یہ قوانین اس عدالت کے دائرہ اختیار میں دے دیے جائیں تو عدالتی فیصلوں کا نفاذ لازمی ہوگا‘‘۔ کونسل کی طرف سے یہ سفارش ۲۶ستمبر ۱۹۸۱ء کو وزارت امور مذہبی کے توسط سے صدر مملکت کو بھیجی گئی۔

        اس سفارش کے بعد وزارت امور مذہبی نے کونسل کو مطلع کیا کہ ’’مسلم پرسنل لاء کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سماعت میں لانے کی تجویز پر کابینہ کے اجلاس منعقدہ۱۵مارچ ۱۹۸۲ء میں غور کیا گیا۔ لیکن کابینہ نے کونسل کی اس سفارش کو منظور نہیں کیا۔‘‘

4      اس طرح ایک مارشل لاء کے نافذ کردہ اور دوسرے مارشل لاء کے تحفظ دادہ یہ قوانین جوں کے توں نافذ رہے اور آج تک نافذ ہیں۔ اگرچہ اس کے بعد بھی بعض دینی حلقوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً ان قوانین کو منسوخ کرنے یا کم از کم ان کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا (۲)لیکن جنرل ضیاء الحق صاحب نے پہلے جرنیلوں اور غیر جرنیل حکمرانوں کی نسبت مزید پکا کام کردیا۔ یعنی عائلی قوانین کو آئینی تحفظ دے دیا کہ اب آئین میں ترمیم کیے بغیر ان کے بارے میں کوئی مطالبات تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔

4      اس سلسلے میں سب سے زیادہ تعجب انگیز بلکہ ناقابل فہم سی بات یہ ہے کہ جب وزارت قانون نے ۱۵جنوری۱۹۸۰ء کو ان قوانین کو ارتداد کی حد تک قرآن میں تحریف‘خلاف کتاب و سنت اور اسلام کے روشن چہرے پر ایک سیاہ دھبہ قرار دے دیا تھا تو سرکاری سطح پر اس فیصلے کے باوجود ان قوانین کو کالعدم کیوں نہ کردیا گیا۔ جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس فیصلہ پر صاد کر چکی تھی۔ ان عوامل و محرکات کا کچھ پتہ نہیں چلتا جو آخری مرحلے پر مانع ثابت ہوئے۔ حالانکہ بظاہر جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ کام بآسانی سر انجام پاسکتا تھا یا کم از کم نظریاتی کونسل کی ترامیم ہی قبول کی جاسکتی تھیں۔ ایسا کیوں نہ ہوا؟

4      اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے چیئرمین جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے اس پر یہ رائے ظاہر کی تھی کہ ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت غالباً خواتین کے ایک طبقہ کی طرف سے مخالفت کے اندیشہ کے پیش نظر مسلم عائلی قوانین مجریہ۱۹۶۱ء (جن کی دفعہ نمبر۴یتیم پوتے سے متعلق ہے)کے بارے میں کونسل یا وزارت قانون کی سفارشات پر عمل پیرا نہ ہوسکی۔‘‘

        پروفیسر قاری محمد طاہر صاحب کا خیال ہے کہ ’’جنرل صاحب اتنے کمزور اعصاب کے آدمی نہیں تھے اور حالات پر بھی ان کی مضبوط گرفت تھی۔ ان کے اس قانون کو ختم نہ کرنے کا محرک صرف ایک ہی تھا ‘یعنی وزارت قانون اور بعض دیگر حکومتی حلقوں کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ----اور ہر بات میں حکومت وقت کی ہاں میں ہاں ملانے کی مذموم روش  ----عائلی قوانین ۱۹۶۱ء میں نافذ ہوئے۔ ان کے نفاذ کے وقت اور اس کے بعد بھی حکومتی حلقوں کی طرف سے ان قوانین کے حق میں دلائل دیے جاتے رہے اور ان قوانین کو اسلام کے موافق اور پاکستانی قوم کے انتہائی مفاد میں قرار دیا گیا۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اخبارات اور جرائد نے ان قوانین کو حکومت کا بہت بڑا اسلامی اور انقلابی کارنامہ بنا کر پیش کیا۔ بعض علماء بھی حکومت کے اس اقدام پر تحسین آمیز تقاریر کرتے رہے اور مضامین لکھتے رہے ---- لیکن جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں معاملہ بالکل برعکس ہوگیا۔ وہی وزارت قانون جس کے وزیر نے ۱۹۶۱ء میں ان قوانین کے (صدارتی حکم کے تحت)اجراء کا اعلان کیا تھا۔ اسی وزارت نے ۱۹۸۰ء میں ان قوانین کو ارتداد کی حد تک اسلام‘قرآن اور سنت کے مخالف قرار دے دیا ----آخر ایسا کیوں ہوا؟

4      اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ یہ لوگ ’’بینگن‘‘ کی بجائے ’’صاحب‘‘ کے غلام ثابت ہوئے۔ ۱۹۶۱ء میں جنرل ایوب خان برسراقتدار تھے اور وہ ان قوانین کو اسلامی سمجھتے تھے (یا ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی)اور وہ ان قوانین کو نافذ کرنا چاہتے تھے تو اقتدار کی ساری ایجنسیاں ان کے حق میں راگ الاپنے لگیں۔ ۱۹۸۰ء میں اقتدار جنرل ضیاء الحق کے پاس تھا۔ ان کے ارکان اسلام کے ساتھ محبت کے مظاہر‘علماء کی قدردانی کی پالیسی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے جذبے کا اظہار ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ لہٰذا اب حکومتی اداروں نے بھی وہی روپ دھار لیا۔ اور ’’جوتھانا خوب بتدریج  ----بلکہ اچانک ہی۔ وہی خوب ہوا‘‘ ---- غالباً جرنیل صاحب اس ’’نکص علی اعقاب‘‘ یا Right about turnسے چڑ گئے‘ یا محتاط ہوگئے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض علماء کی تضاد بیانی اور حسب موقع اپنا موقف بدل لینا بھی اس کا سبب بنا ہو۔ جس کی اس زمانے میں مثالیں ملتی ہیں۔

        تاہم جنرل ضیاء الحق کا ان قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے بھی دائرہ اختیار سے باہر رکھ کر ان کو آئینی تحفظ دلانے کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ کیا وہ بھی اپنے اوپر ’’بنیاد پرستی‘‘ کا الزام نہیں لینا چاہتے تھے؟ کیا وہ اپنی ذات یا اپنی حکومت کے بعض ظاہری اور باطنی تضادات کے دباؤ کا شکار تھے؟

        کیا ان کو اپنی ہی قائم کردہ وفاقی شرعی عدالت پر اعتماد نہیں تھا؟ اور اسی لیے انہوں نے عائلی قوانین کے علاوہ بعض اور چیزیں (مثلاً مالی امور)بھی اس عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھے تھے۔

        ان سوالوں کا جواب تو اب ’’واللہ اعلم بالصواب‘‘ہی ہے۔ کیونکہ نیتوں کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ البتہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح آدمی بھی بڑی حد تک اپنی عادتوں اور حرکتوں سے پہچانا جاتا ہے۔

        بہرحال یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے ہمارے موضوع سے متعلق تو اس سارے قصے میں یہ بات ہے کہ یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ ۱۹۵۳ء میں پہلی دفعہ سیاست میں لایا گیا۔ پھر ۱۹۵۵ء سے وہ دوبارہ دینی اور علمی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بنا لیا گیا اور اسے ایک دوسرے اہم سیاسی مسئلہ (عائلی قوانین)کے ساتھ شامل کر دیا گیا اور۱۹۶۱ء میں قانون بن جانے کے بعد سے وہ ایک سیاسی موضوع ہی چلا آیا ہے۔ لیکن ہم اپنی بحث میں اسے علمی اور فقہی نقطہ نظر سے ہی دیکھتے چلے آئے ہیں اور اسی پہلو سے اس کی موجودہ قانونی حیثیت پر مبصرانہ نگاہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آخر کار تو وہ دینی مسئلہ ہی ہے۔

4      عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴میں اسے جن الفاظ کے ساتھ مقید کیا گیا ہے اس کی اصل انگریزی عبارت اور اس کا مستند قانونی اردو ترجمہ ہم ابھی اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اب ہم اس دفعہ پر اس نقطہ نظر سے بات کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس دفعہ کے یہ الفاظ عبارت کہاں سے لیے گئے ہیں  ----اس کی انشاء (Drafting)کے پیچھے کس کا ذہن کام کررہا تھا  ----اور قرآن و سنت کی روشنی میں قانون کے ان الفاظ کے مضمرات کیا ہیں؟

        آئیے ذرا درج ذیل عبارت پر نظر ڈالیے:

        ’’مورث کا کوئی ایسا نسبی رشتہ دار جو اس کے ترکہ میں اس کی وفات کے بعد حصہ پاتا لیکن جو مورث کی وفات سے پہلے ہی فوت ہوگیا۔ اس کی جگہ اس کا قریب ترین نسبی رشتہ دار لے گا اور وہ مورث کی وفات کے وقت وہی حصہ پائے گا جو اس فوت شدہ کو ملتا‘‘ ----یہ عبارت طلوع اسلام اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۵۸سے لی گئی ہے اور یہ دسمبر ۱۹۵۳ء میں محمد اقبال چیمہ ایم ایل اے کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ ترمیمی بل کے مسودہ میں (جس پر مقالہ کے ضمیمہ الف میں مفصل بات ہوئی تھی)مزید ترمیم کے لیے تجویز کی گئی تھی یعنی ’’طلوع اسلام‘‘کے نزدیک چیمہ صاحب کا مجوزہ ترمیمی بل ان الفاظ اور اس عبارت کے ساتھ پیش ہونا چاہیے تھا۔ طلوع اسلام والوں کے اس بدلتے ہوئے موقف اور وراثت میں قائم مقامی کو صرف ’’نسبی رشتہ داروں‘‘تک محدود کرنے کے صریحاً خلاف قرآن اور محض جاہلانہ تحکم ہونے پر بھی ہم نے اپنے مقالہ میں مختصراً تنقید کی تھی (دیکھئے مقالہ کے دوسرے حصے میں باب پنجم کے آخر پر صفحہ ۱۰۶‘حاشیہ ۱۳)لیکن اب ذرا تفصیل کے ساتھ بات کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

4      آپ اس عبارت کا عائلی قوانین کی دفعہ نمبر ۴کی عبارت سے آمنے سامنے لکھ کر موازنہ کیجیے۔ ایک ہی مفہوم بلکہ الفاظ بھی قریباً یکساں ہیں۔ یہاں کسی ’’نسبی رشتہ دار‘‘کا مورث سے پہلے فوت ہوجانا بیان ہوا ہے۔ جبکہ قانون کی دفعہ نمبر ۴میں ’’مورث کے کسی بیٹے یا بیٹی کی موت‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح اس عبارت میں وراثت آگے مورث کے ’’قریب ترین نسبی رشتہ دار‘‘کو منتقل ہونے کی بات کی گئی ہے جبکہ دفعہ نمبر ۴میں ’’ایسے بیٹے یا بیٹی کی اولاد‘‘ کو وراثت دینے کا ذکر ہے ----گویا ’’نسبی رشتہ دار‘‘کی جگہ بیٹا بیٹی اور آگے ’’ان کی اولاد‘‘کے لفظ لائے گئے ہیں اس لیے کہ’’ نسبی رشتہ دار‘‘میں بھی ایک ابہام تھا اس میں تو پھر ’’ماں اور باپ ‘‘بھی آتے تھے اور یہ پھر وہی ناممکن العمل قائم مقامی کی ایک صورت ہوتی اس لیے وزارت قانون کے ماہر ڈرافٹ نویسوں نے ’’بیٹا بیٹی‘‘ اور ’’اولاد‘‘ کے الفاظ ڈال کر بات صاف کردی ۔ باقی مضمون یکساں ہے۔ گویا دفعہ نمبر ۴کی عبارت دراصل متجددین کے علمبردار ادارہ طلوع اسلام ہی کی تجویز کردہ ہے  ----یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دفعہ نمبر۴کی اصل انگریزی نص (قانونی عبارت) میں ’’مورث‘‘ کے لیے لفظ’’ Propositus‘‘استعمال ہوا ہے جس کے قانونی معنی صرف ’’نسبی مورث‘‘ کے ہیں۔ ڈکشنری میں قانونی اصطلاح کے طور پر اس کے معنی یوں بیان ہوئے ہیں:

"The person from whom a line of descent is derived on a genealogical table"

قرآنی قانون وراثت کے مطابق تو ’’وارث‘‘کی طرح ’’مورث‘‘ بھی چھ افراد یا رشتہ دار ہو سکتے ہیں‘ یعنی ماں‘ باپ‘ خاوند‘ بیوی ‘بیٹا اور بیٹی‘‘یہ سب وراثت لیتے بھی ہیں اور ان سب سے وراثت ملتی بھی ہے۔ یہ قرآن کی رو سے بنیادی وارث اور مورث ہیں ‘ان کا تعلق باہمی متبادل(Reciprocal) یا (Counterpart)کا سا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے تو اسے وارث بننے سے اور اگر ’’متوفی ‘‘ہے تو اسے مورث (وراثت دینے والا)بننے سے قانوناً روکا نہیں جاسکتا۔ مورث کے ان شرعی معنی سے بچنے کے لیے لفظ’’Propositus‘‘لایا گیا اور پھر مزید تاکید کے لیے وارثوں میں صرف بیٹا یا بیٹی کا ذکر کر دیا گیا ۔ گویا ’’وہی نسبی رشتہ دار‘‘ کو ہی مورث اور اسی کو وارث بنایا گیا ہے۔ صرف لفظ دوسرے ہیں اور ساتھ تاکیداً  ’’Per stirpes‘‘کے لفظ لائے گئے ہیں جس کے معنی ہیں

’’For each line of descent‘‘یا زیادہ قانونی مفہوم کے مطابق for each one from which a family is descendedگویا ہر طرف سے ’’نسب‘‘ پر ہی زور ہے۔

4      یوں ہم دیکھتے ہیں کہ عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴کی عبارت کی اصل وہی طلوع اسلام والی مجوزہ عبارت ہے۔ اور اسی لیے تو طلوع اسلام نے اپنے اپریل ۱۹۶۱ء والے کنونشن کو۔ عائلی قوانین کے نفاذ پر جشن فتح کے طور پر منایاتھا۔ ادارہ کے اس وقت کے سربراہ غلام احمد پرویز صاحب کے کنونشن سے خطاب کے حسب ذیل الفاظ قابل غور ہیں:

        ’’برادران گرامی!کس قدر جواں بخت ہے یہ ہمارا دور جس میں چودہ سو سال کے بعد رجعت الی القرآن کی صدائے جمیل نے فضاء میں حسین ارتعاش پیدا کیا۔ کس قدر خوش نصیب ہے یہ خطہ پاک جسے ان آسمانی قوانین کا گہوارہ بننے کی سعادت نصیب ہوئی اور کس قدر مستحق تبریک و تہنیت ہے وہ ثریا بخت مملکت جس نے دنیا میں پھر سے قرآن کی آواز بلند کی ہے الخ‘‘(دیکھئے طلوع اسلام مئی جون ۱۹۶۱ء صفحہ۵۴)پرویز صاحب کی یہ تحریر (جسے آپ قلنبہ گوئی کہیں یا پر شکوہ اسلوب)بہرحال ایک تو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پرویز صاحب کا اہل علم ہونا متنازعہ فیہ ہوسکتا ہے ان کے اہل قلم ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے یہ عبارت ان کی اس بے پایاں مسرت پر دال ہے جو ان کو عائلی قوانین (اور خصوصاً اس کی دفعہ نمبر ۴)کے حسب مرضی نفاذ سے ہوئی تھی۔

4      اب یہاں اس نقطہ پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے کہ کیا طلوع اسلام (یا اس کے بانی مبانی پرویز صاحب)’’یتیم پوتے کی وراثت کے مسئلہ ‘‘پر شروع سے یہی رائے رکھتے تھے جو انہوں نے اقبال چیمہ صاحب کے مجوزہ ترمیمی بل کے مسودہ کی اصلاح کے لیے پیش کی تھی اور جسے عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴ میں قانونی شکل دیے جانے پر ان کے اندر خوشی سے لڈو پھوٹنے لگے تھے۔ اس کے لیے ہمیں ایک دفعہ پھر اس قضیے پر ۱۹۱۷ء سے اب تک کے بعض مراحل کو خاص اس پہلو سے یعنی اپنے موقف پر ثابت قدم رہنے یا نہ رہنے کے نقطہ نظر سے دیکھنا پڑے گا۔ کیونکہ ویسے تو ہم اس داستان کا کچھ حصہ اصل مقالہ میں اور باقی اس ضمیمہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔

4      ہم مقالہ کے پہلے حصے میں مسئلہ کے ’’قدیم پہلو‘‘کے ضمن میں فقہائے متقدمین (سنی شیعہ ہر دو)کا حیرت انگیز حد تک متفقہ اور مجمع علیہ موقف بیان کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں (مقالہ کے حصہ دوم میں)کہ اس موقف کی بنیادی وجہ ’’قرآنی قانون وراثت میں نظریہ نیابت (قائم مقامی)کا ناممکن العمل ہونا‘‘ہے۔ ہمارے علماء اس مسئلہ پر ’’سلف سے خلف تک کے کامل اتفاق‘‘ کی بات تو کرتے تھے مگر اس ’’اتفاق‘‘ اور اجماع کی بنیادی وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے یا یہ بات ان کے ذہن میں نہیں آئی۔ بہرحال جب یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ متنازعہ فیہ بنا دیا گیا (جس کی ابتداء ۱۹۱۷ء سے ہوئی اور جس میں زور ۱۹۴۸ء کے بعد سے آگیا تھا)تو بعض اہل علم کے ذہن میں یہ بات (متفقہ موقف کی بنیاد والی)آئی جس کا تقریر اور تحریر میں بھی ذکر ہوا اور جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم مقالہ کے حصہ دوم (باب پنجم)میں بالتفصیل بحث کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماء کے موقف کی بنیاد مستحکم تھی۔ اس لیے ان کو اس میں کسی ترمیم یا تبدیلی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔۔۔اگر قرآن کا قانون وراثت برحق ہے تو اس کے نفاذ کے نتیجے میں یہ موقف (محجوب الارث والا)بھی برحق اور اٹل ہے۔

4      اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ متجددین کا موقف اس بارے میں بدلتا رہا ہے‘ بلکہ قلابازیاں کھاتے رہے ہیں۔ اس بارے میں ان کا سارا سرمایہ مولانا اسلم جیرا جپوری صاحب کا مقالہ ’’محجوب الارث‘‘ تھا جو خود خواجہ احمد الدین امرتسری مرحوم کے مجموعہ رسائل ’’الورا ثۃ فی القران‘‘ سے ماخوذ تھا۔ جیرا جپوری صاحب نے یتیم پوتے کے مسئلہ کے حل کے لیے اپنے مقالہ میں اقربیت کا نیا مفہوم پیش کیا تھا (جو ہمارے مقالہ میں زیر بحث آچکا ہے) ان کے اس نظریہ اقربیت میں اور اس کی تعبیر و توضیح میں (جس طرح اسے طلوع اسلام نے پیش کیا)دو باتیں بڑی واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آئیں۔

(۱)  ’’یتیم پوتا (یعنی بھتیجا) اپنے چچا کا بھائی بن کر اپنے باپ کا حصہ بطور وراثت لے سکتا ہے۔ ‘‘(دیکھئے مقالہ کا حصہ دوم باب دوم کی فصل اول بحوالہ تین اہم مسائل صفحہ ۱۸۵)

(۲)  ’’مردوں کے حصے (وراثت میں)نہیں نکالے جاتے۔ یتیم پوتے (بھتیجے)کو براہِ راست اپنا حصہ ملتا ہے (بھائی بن کر)نہ کہ اس کے متوفی باپ کا حصہ‘‘(دیکھئے مقالہ کا مندرجہ بالا (حصہ دوم کے باب دوم والا)حصہ بحوالہ تین اہم سال صفحہ ۱۵۶‘۱۵۷۔

        لیکن جونہی صرف ایک چچا اور ایک بھتیجا (یتیم پوتا)کی بجائے جیراجپوری صاحب کے اس قاعدہ اقربیت کے مطابق ایک چچا یا زیادہ چچاؤں کے ساتھ متعدد بھتیجوں اور بھتیجیوں کا تصور سامنے آیا (جوکوئی نادر الوقوع چیز بھی نہیں)تو اس ’’اجتہادِ نو‘‘کی غلطی بلکہ لغویت اور نامعقولیت واضح ہوگئی ۔(۳)(دیکھئے اصل مقالہ کے حصہ دوم کے باب دوم کی فصل اول کا آخری حصہ)چنانچہ متجددین کے اس وقت کے قائد و سربراہ جناب پرویز صاحب بھی اسے سمجھ گئے تھے۔ (اگرچہ جان لینے کے باوجود ظاہراً مان لینے سے گریز کیا)۔ اسی لیے انہوں نے چوہدری محمد اقبال چیمہ والے مجوزہ ترمیمی بل کی تعریف کے پل باندھنے کے باوجود چیمہ صاحب کے مسودہ (جس پر ہم نے مقالہ کے ضمیمہ الف میں بات کی ہے)میں وہ ترمیم پیش کی جو ہم نے ابھی اوپر طلوع اسلام اپریل ۱۹۵۴ءکے حوالے سے بیان کر دی ہے اور جو بعد میں عائلی قوانین کی دفعہ نمبر ۴ کی بنیاد بنی۔ حالانکہ مولانا اسلم جیراجپوری صاحب کے جس نظریہ اقربیت کے تختے پر کھڑے ہوکر قائد تجدد اپنا قد (image)بلند کررہے تھے اس کے مطابق تو یہ ترمیم یوں پیش کرنی چاہیے تھی   ---کہ ’’مورث کا کوئی ایسا پوتا پوتے یا پوتی پوتیاں جس کا باپ /جن کے باپ مورث کی زندگی میں فوت ہوگئے ہوں تو ان کو اپنے چچا/چچاؤں کا بھائی بہن سمجھ کر مورث کی وراثت تقسیم کی جائے گی۔‘‘ اگر عائلی قوانین میں بھی اسی طرح کی قانون سازی ہوجاتی تو پھر پتہ چلتا کہ وکلا ء اور عدالتوں کے جج کس طرح سر پکڑ کر بیٹھے نظرآتے۔

        خیال رہے کہ جیراجپوری صاحب کے اعتراضات چونکہ حنفی فقہ فرائض پر ہی تھے اس لیے انہوں نے یتیم نواسے یا نواسی (یعنی ماں کی طرف سے یتیم)کو ماموں کے ساتھ بھائی بہن بنا کر حصہ دینے کی بات نہیں کی تھی (جو عملاً تو شیعہ فقہ فرائض کا مسئلہ ہے اگرچہ حنفی فقہ میں بھی ان کا درجہ بعد میں بطور اولوالارحام آتا ہے)   ---ورنہ اگر اس مجوزہ ترمیم میں یتیم بھتیجوں‘بھتیجیوں کو بھائی بہن بنانے کے ساتھ مرنے والی بہن کی اولاد کو بھی زندہ رہ جانے والے ماموں کے ساتھ بھائی بہن بنا دیا جاتا جو اس نئے نظریہ اقربیت کا لازمی نتیجہ بنتا ہے۔ تو کیا ہوتا اس کی دو مثالیں ہم مقالے کے دوسرے حصے کے باب دوم کے آخر میں بیان کرآئے ہیں   ---پنجاب مقننہ کی طبع کردہ آراء میں اس نامعقول نظریہ کی کچھ مزید مثالیں بھی دی گئی تھیں جن کے حوالے ہمارے مقالے کے حصہ دوم کے باب دوم کی فصل دوم میں بھی دیے گئے ہیں۔

4      بہرحال اپنے اس مایہ ناز نظریہ اقربیت میں پوشیدہ مغالطہ کی حقیقت اور نامعقولیت ظاہر ہوجانے پر متجددین (یا طلوعِ اسلام)کو اپنا یہ نظریہ ترمیمی بل میں پیش کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ یہ پہلی قلابازی تھی کہ اپنا بہت تشہیردادہ موقف بدل لیا۔

        یہاں بر سبیل تذکرہ یہ بات بھی قابل ذکر بلکہ باعث تعجب ہے کہ جب عائلی قوانین بن گئے اور اس کی دفعہ نمبر۴والا قانون خود طلوع اسلام ہی کی مذکورہ بالا مجوزہ ترمیم کے مطابق ہی تھا اور اسی قانون کی متجددین حضرات مدح سرائی بھی کرچکے تھے۔ لیکن جب مارچ ۱۹۸۶ء میں بعض علماء نے عائلی قوانین کے خلاف قرآن و اسلام ہونے کے مسئلہ کو دوبارہ چھیڑ دیا تو ادارئہ طلوع اسلام نے اپنے اپریل ۱۹۸۶ء کے شمارہ میں ان علماء پر سوقیانہ طعن و تشنیع کی (اگر پرویز صاحب مرحوم زندہ ہوتے تو غالباً وہ اپنی تحریر کاوقار یوں نہ گنواتے)۔ اس شمارے میں صورت مسئلہ سمجھانے کے لیے پھر وہی مولانا جیراجپوری صاحب کے مقالہ’’ محجوب الارث‘‘ والی مثالیں اور وہی نیا نظریہ اقربیت (پچھلی فائلوں سے نکا ل کر )دوبارہ نقل کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ لوگ ایوب خانی قانون کو تسلیم کرکے خود ہی اپنی اس ’’ہلدی کی گرہ‘‘ کو نامعقول سمجھ کر پرے پھینک چکے تھے۔ پھر اس متروک اور نامعقول بحث کو دوبارہ درمیان میں لانے کا کیا فائدہ؟

4      دوسری طرف پنجاب مقننہ کی طبع کردہ پبلک آراء کے سامنے آنے پر طلوعِ اسلام والوں کو نظریہ قائم مقامی کے قرآنی قانونِ وراثت میں ناقابل عمل ہونے کی بھی سمجھ آگئی (اس نظریہ قائم مقامی پر بھی مقالہ کے دوسرے حصے میں۔ باب دوم کی فصل دوم میں مفصل بحث ہوچکی ہے)تو وہ اپنے علی الاعلان بیان کردہ موقف کہ ’’سن رکھیے مردوں کے حصے نہیں نکالے جایا کرتے۔‘‘ (دیکھئے مقالہ کے حصہ دوم کی فصل اول بحوالہ تین اہم مسائل ۵۷۔۶۵۶)سے بھی منحرف ہوگئے۔ یہ دوسری قلابازی تھی کہ ’’فوت شدہ کا حصہ(’’جو اس فوت شدہ کو ملتا‘‘) نکالنے پر بھی آمادہ ہوگئے۔

4      اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ کہ قرآن کریم کے بنیادی چھ وارثوں (ماں‘ باپ‘ بیوی‘ خاوند‘بیٹی‘بیٹا)میں سے حق وراثت میاں بیوی سے بلکہ عملاً والدین سے بھی چھین لینے پر آمادہ ہوگئے اور حق وراثت کو صرف نسبی رشتہ داروں (بیٹا بیٹی)تک محدود کر دیا (کیونکہ قائم مقامی صرف اسی صورت میں چل سکتی ہے)یہ قرآن حکیم کے قانون وراثت بلکہ اصول وراثت ہی سے صریح بغاوت ہے۔ ہم نے مقالے میں بھی اس خودرایانہ اور جاہلانہ تحکم پر تنقید کی تھی (دیکھئے مقالہ کے دوسرے حصے کے باب پنجم کا آخری حصہ)۔ قرآن کریم میں تو ہے کہ {مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ}  (النساء:۷) کہ وراثت ماں باپ سے بھی ملے گی اور بعض دوسرے قریبی (الاقربون) رشتہ داروں (مثلاً بیوی ‘خاوند ‘بیٹا‘بیٹی)سے بھی   --طلوعِ اسلام کی نسبی رشتہ داروں والی تجویز (اور پھر اسی پر مبنی عائلی قوانین کی دفعہ نمبر۴)کے مطابق تو وراثت دینے کا حق صرف والدین کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے۔ الاقربون (جن میں خاوند اور بیوی لازماً شامل ہیں)سے وراثت پانے کے قرآنی حق کا ہی انکار کر دیا گیا ہے’’ قرآنی فکر‘‘کی یہ کون سی قسم ہے؟ کاش کہ اپنے مخالف علماء کو ’’منکرین قرآن‘‘ کہنے والے (دیکھئے مقننہ پنجاب کی پبلک آراء میں طلوعِ اسلام کے پیش کردہ مضمون میں صفحہ۵پر عنوان ’’منکرین قرآن کی طرف سے جواب‘‘)اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیتے۔ اتنی سی بات کو تو آیاتِ میراث کا ترجمہ جاننے والا بھی سمجھ سکتا ہے اس کے لیے مفکر قرآن ہونابھی ضروری نہیں۔

4      میاں بیوی کاوراثت میں حصہ تو قرآن کریم کا اتنا واضح حکم ہے کہ اس کو ترک کرنے کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے اہل السنت زوجین کو ذوی الفروض میں رکھ کر سب سے پہلے ان کا حصہ نکالتے ہیں اور اسی لیے فقہ جعفری میں زوجین کو طبقات ورثاء سے الگ رکھا گیا ہے کہ زوجین ہر طبقہ کے ساتھ وراثت پائیں گے وہ کبھی محجوب نہیں ہوسکتے۔

4      وراثت کو نسبی رشتہ داروں تک محدود کرنا اور مرنے والے کی بیوہ کو بھی اس سے محروم کرنا تو ایک لحاظ سے ہندو رواجی قانونِ وراثت سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ ہندو قانون کے مطابق بھی بیوہ (خاوند کی اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں)’’تاحیات‘‘ اپنے مرنے والے خاوند کی جائیداد کی مالک متصور ہوتی ہے البتہ وہ اسے کہیں منتقل نہیں کرسکتی۔ باقی تصرفات (ٹھیکہ‘کرایہ‘مزارعت وغیرہ)کا اسے حق ہوتا ہے۔ اس کے مرنے کے بعد وہی جائیداد  اس کے مرنے والے خاوند کے ’’نسبی رشتہ داروں‘‘کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ہندوؤں میں چونکہ بیوہ دوبارہ شادی نہیں کرسکتی اس لیے ان کے ہاں بیوہ کا یہ حق’’تاحیات ‘‘کے ساتھ مقید ہے۔ مسلمانوں کے جن علاقوں میں انگریزوں نے رواجی ہندوانہ قانون اپنانے کی اجازت دے دی تھی (یا جہاں خود مسلمانوں نے شریعت کے مقابلے پر رواجی (ہندو)قانون کو ترجیح دے کر اختیار کیا تھا)وہاں بھی مسلمان بیوہ (خاوند کی اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں)تا ’’نکاح ثانی ‘‘ اپنے مرحوم خاوند کی جائیداد کی مالک اور بیع و انتقال کے سوا تمام تصرفات کی حقدار سمجھی جاتی تھی۔ خیال رہے کہ قرآن کریم کے مطابق تو بے اولاد بیوہ بھی اپنے خاوند سے وراثت کی لازماً حقدار ہے۔

4      امریکہ میں (بہت سے یورپی ممالک کی طرح)الگ قانون وراثت نہیں ہے بلکہ یہ مورث کی وصیت پر منحصر ہے۔ وہاں اگر کوئی آدمی بغیر وصیت کیے مرجائے تو حکومت ہی اس کی ساری جائیداد کی وارث ہوتی ہے۔ البتہ حکومت کے قبضہ کر لینے کے بعد مرنے والے کی صرف بیوہ (جس کے حق میں وصیت بھی نہیں ہوسکی تھی)اپنا کچھ حصہ حکومت سے طلب کرسکتی ہے اور اسے کچھ نہ کچھ مل بھی جاتا ہے مگر مرنے والے کا دوسرا کوئی عزیز (اولاد بھی)وصیت کے بغیر حکومت سے کچھ نہیں لے سکتا۔

        ہمارا یہ دو مثالیں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق جس مودت اور رحمت پر مبنی ہے اسے ہندو رواج اور امریکی قانون تک نے تسلیم کیا ہے ----مگر محض بات کی پچ کی خاطر اور ایک issueپر شکست سے بچنے کے لیے یہ ’’مفکرین قرآن‘‘ اپنی ’’فکر قرآنی‘‘ کی ناک پر بھی ضد اور جہالت کا استرا چلا دینے سے نہیں جھجکے۔

        دنیا کا کوئی غیر مسلم (یہودی عیسائی وغیرہ)عربی دان بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرے تو وہ بھی اس نتیجہ پر پہنچ جائے گا کہ ’’یہ کتاب بیک وقت والدین‘زوجین اور اولاد (بیٹا بیٹی)کو لازماً وارث بناتی ہے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی (بوقت تقسیم وراثت زندہ ہوتے ہوئے)کسی طرح محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی نظیر ادیان عالم اور انسانی (وضعی)قوانین میں کہیں نہیں ملتی اور اس لیے Von Kremerنے اسلامی قانون وراثت کو اسلامی قوانین کی Supremely Original Branchقرار دیا تھا (دیکھئے مقالہ کی تمہید)۔

        اور حالت یہ ہے کہ خود ’’مفکرین قرآن‘‘ اس عظیم و بے مثل قانون کی اسی ’’Originality‘‘کو ختم کرکے اسے ہندوانہ رواجی قانون کی سطح پر لے آنے پر آمادہ ہوگئے (صرف اس فرق کے ساتھ کہ نسبی رشتہ داروں میں بیٹا بیٹی دونوں کو (قرآن کے مطابق)شامل کر لیا جائے جبکہ ہندو قانون میں صرف بیٹا وراثت پاتا ہے بیٹی نہیں) کیا قرآنی قانون وراثت بس اتنا ہی ہے کہ بیٹے کے ساتھ بیٹی بھی حصہ لے گی۔ آگے والدین اور زوجین کا ذکر ہی نہیں ہے؟ یا للعجب!

4      اور پھر قرآن کریم کے اس قانون وراثت میں  --- جس میں وراثت پانچ طرف سے کسی کے پاس آ سکتی ہے اور پھر صاحب جائیداد کے مرتے ہی پانچ مختلف سمتوں میں روانہ ہوجاتی ہے  --- اس قانون میں گردش زر کاجو اصول ہے اور انسانی معاشرے کے جو معاشی مصالح اس سے وابستہ ہیں اسے یہ ’’نظام ربوبیت‘‘کا نعرہ لگانے والے بھی نہ سمجھ سکے یا محض ’’بَغْیًـا بَیْنَہُمْ‘‘ کے ماتحت ہر چیز سے آنکھیں بند کر لیں؟ جب دیکھا کہ قرآنی قانون وراثت میں تو اصول قائم مقامی کسی طرح چل ہی نہیں سکتا تو ہندوؤں کی طرح (یا دوسرے مذاہب کی طرح) صرف ’’نسبی رشتہ داروں‘‘(یعنی صرف اولاد)کے حق وراثت کے نمائندہ بن بیٹھے‘ کیونکہ صرف اسی میں قائم مقامی چل سکتی ہے۔

        کیا یہ اسی طرح کی سنگدلی نہیں جس کے ماتحت ہمارے جاہل مسلمانوں کو بوڑھی سوتیلی ماں کو یا جوان بے اولاد بیوہ بھاوج کو (جسے نکاحِ ثانی کا حق بھی دیا گیا ہے)قرآنی قانون کے مطابق وراثت میںحصہ دینا خلافِ عقل اور باعث ِفساد نظر آتا ہے۔

4      آئیے اب عائلی قوانین کی دفعہ (نمبر۴)پر بھی قرآن ہی کی روشنی میں غور کرلیں۔ اس دفعہ کی انگریزی اور اردو عبارت اوپر بیان ہوچکی ہیں ذرا ان کو سامنے رکھ لیجیے۔

(۱)      اس میں بھی پہلی خلافِ قرآن بات تو یہی ہے کہ قرآنِ کریم کے مقرر کردہ چھ بنیادی وارثوں (والدین‘زوجین اور بیٹا بیٹی)میں سے صرف دو (یعنی مرنے والے بیٹے یا بیٹی)کے لیے حق جانشینی (یا قائم مقامی)تسلیم کیا گیا ہے۔ آخر مرنے والے خاوند‘مرنے والی بیوی یا مرنے والے ماں اور باپ کا حصہ کیوں نہ نکالا جائے اور پھر آگے ان کے ممکنہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے؟ اس پر ہم مقالے کے حصہ دوم کے باب دوم کی فصل دوم (صفحہ ۷۴تا۸۰)میں مفصل بات کر چکے ہیں۔ اسی سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے قانون وراثت میں نیابت یا قائم مقامی نہیں چل سکتی۔

(۲)     پھر اس میں دوسری خلاف قرآن بات یہ ہے کہ مرنے والے بیٹے یا بیٹی (بیٹوں بیٹیوں)کا حصہ نکال کر آگے ان کے قرآنی شرعی وارثوں کی بجائے صرف ان کے بیٹوں بیٹیوں ہی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آخر مرنے والی بیوی کے خاوند یا مرنے والے خاوند کی بیوہ کو آپ قرآن کے کس حکم کے تحت وراثت سے محروم کرسکتے ہیں؟    اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟

4      یہاں ایک اور بات ضمناً سامنے آتی ہے عائلی قوانین کی اس دفعہ نمبر۴میں اگرچہ صریحاً یہ نہیں کہا گیا کہ مرنے والے/ والی کی بیوہ خاوند کو محروم الارث کردیا جائے گا۔ تاہم قانون سازی میں اولاد (بیٹایابیٹی)کے الفاظ کا لازمی نتیجہ یہی نکلا کہ جب اعلیٰ عدالتوں میں اس قانون کی عملی تعبیر و تشریح کا وقت آیا تو یہ معاملہ صاف ہوگیا کہ ’’مورث کی وفات سے قبل فوت ہوجانے والے پسران اور دختران کی اولاد کو اپنے باپ یا ماں کا حصہ بحصہ رسدی ملتا ہے۔ ایسے فوت شدہ پسران یا دختران کی بیوہ یا شوہر کو اس حصے سے کچھ نہیں ملے گا۔ (۴)

        غالباً کسی مرنے والے کی بیوہ (یا مرنے والی کے شوہر)نے اس بناء پراپنا شرعی حق مانگا ہوگا کہ آخر جس کا حصہ تقسیم کے لیے نکالا جارہا ہے اسی میں اس کا بھی حصہ بنتا ہے مگر عدالت مجبور تھی کہ قانون کے الفاظ (Litra Legis)ان کے حق کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ صرف ان کے نسبی وارثوں یعنی اولاد تک ہی محدود ہیں۔ عدالتوں کے ان فیصلوں میں  ان لوگوں کے لیے بھی جواب موجود ہے جو یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے پر قرآن کے کسی صریح حکم (نص)کا مطالبہ کرتے ہیں بعض قانونی احکام کے لیے نص صریح نہیں ہوتی مگر وہ نص صریح پر عمل کرنے یا اس کو نافذ کرنے کا صریح اقتضاء (Corollary)ہوتے ہیں۔

4      قرآنِ حکیم کے احکام وراثت کی ان دو بغاوت کی حدوں کو چھونے والی خلاف ورزیوں کے باوجود متجددین کا ان عائلی قوانین کی مدح سرائی کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ’’اس قانون کی ایک شق بھی قرآن کے خلاف نہیں ہے‘‘(دیکھئے طلوع اسلام اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ۸۰)اس کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟

        کیا یہ اللہ اور اس کے رسول کی صریح نافرمانی اور اللہ کی حدود سے تجاوز اور سرکشی نہیں جس پر سورۃ النساء کی آیاتِ میراث کے معاً بعد سخت وعید سنائی گئی ہے۔ (دیکھئے سورۃ النساء :۱۴)

4      اور آخر پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عائلی قوانین کی دفعہ نمبر ۴کے ذریعے کی گئی اس قانون سازی نے ملک کے کتنے یتامی کا مسئلہ (یا مسائل)حل کر دیے ہیں۔ اس طرح دادا کی وراثت سے حصہ لینے والے یتیم تو شاید پورے ملک میں ایک سو فی لاکھ بھی بمشکل ہوں گے۔

        کیا باقی یتامی کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے ؟ (مناسب ہوگا کہ ہمارے مقالہ کے حصہ دوم کے باب دوم ’’قرآن اور تحفظ مصالح یتامی‘‘ پر ایک نظر ڈال لیں)کاش کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر ملک بھر کے یتامی کے مسائل کے لیے قرآنی احکام کے مطابق قانون وصیت اور قانون نفقات (کفالت)کے نفاذ کے ذریعے قانون سازی کی جاتی ۔ جس میں ہر طرح کے یتیموں کے علاوہ دوسرے محتاج مگر غیر وارث رشتہ داروں (بیوہ بہنوں‘مفلس بھائیوں وغیرہ)اور غیر رشتہ داروں کے مسائل کے حل کی بھی گنجائش موجود ہے۔

4      اور حکومتی سطح پر اس مسئلہ کا حل بذریعہ قانون سازی کرنے کے حوالے سے یہاں بطور تقابل یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ یہی مسئلہ (محجوب الارث یتیم پوتے وغیرہ کا)حل کرنے کے لیے حکومت مصر نے بھی قانون سازی کی ہے اور حکومت پاکستان نے بھی۔

4      حکومت ِمصر نے اس کا علاج  وصیتہ واجبتہ کا قانون نافذ کرکے کیا ہے (جس پر مقالہ کے حصہ دوم کے باب چہارم میں بات ہوئی تھی)۔چونکہ وہاں عام قانونِ وصیت بھی نافذ ہے اور دادا اپنی زندگی میں ایسے یتیم پوتوں نواسوں وغیرہ کے لیے وصیت کرسکتا ہے جو بعد میں قانوناً نافذ ہوگی۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں بطورِ ہبہ بھی دے سکتا ہے۔ اس لیے مصری قانون (وصیت واجبہ)’’صرف ایسے محجوب الارث پوتوں نواسوں وغیرہ (اولاد الاولاد) کے لیے ہے جن کو دادا نانا نے اپنی زندگی میں نہ تو کوئی چیز بطورِ ہبہ دی ہو اور وصیت بھی نہ کرسکا ہو جس کی وجہ سے وہ عام قانونِ وصیت سے متمتع نہ ہوسکتے ہوں (جیسے امریکی قانون میں وہ بیوی جس کے لیے خاوند کو وصیت کا موقع نہ ملا)ایسے پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے لیے مورث کے کل ترکہ کے ۳/۱حصہ میں سے (جو سنت کے مطابق وصیت کی حد ہے)بذریعہ سول عدالت بطور وصیت واجبہ حصہ ملنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ مصری حکومت کا یہ قانون قرآن و سنت سے قریب تر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہاں الازہر (یونیورسٹی) اور علماء دین کے اثرات غالب ہیں ورنہ متجددین مصرمیں بھی تھوڑے اور کچھ کم فعال نہیں۔ وہاں تو ایسے لوگ بھی تھے جو کمال پاشا کی طرح عربی زبان کے لیے لاطینی رسم الخط اختیار کرنے کے زبردست حامی تھے۔ لیکن وہاں کے متجددین (بلکہ خواندہ عوام)بھی عربی زبان سے اتنے جاہل نہ تھے کہ وہ قرآن کی آیات میراث میں بیان کردہ چھ بنیادی وارثوں کے مفہوم سے بھی بے خبر ہوں۔ ان کے لیے قرآنی قانون وراثت میں صرف نسبی وارثوں کا تصور سراسر اجنبی تھا۔ جو سراسر غیر اسلامی تصور ہے۔

4      اس کے برعکس پاکستان میں چونکہ محجوب الارث کو مورث کی وصیت سے متمتع ہونے کا بذریعہ قانون موقع ہی نہیں دیا گیا (یعنی یہاں قرآنی قانون وصیت نافذ نہیں)اس لیے یہاں اس مقصد (محجوب الارث کو کچھ دلانے)کے لیے قرآن کے قانونِ وراثت میں ہی تحریف کر دی گئی۔ یہاں ایسے تمام اولاد الاولاد کو جو بوقت تقسیم وراثت زندہ موجود ہوں (چاہے دادا نانا ان کو اپنی زندگی میں بھی کچھ دے گیا ہو)سب کے لیے ’’وراثت ‘‘پاسکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ (مصری قانون میں یہ شرط مذکور ہے جبکہ ہمارا قانون بالکل خاموش ہے)اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پاکستان میں عربی بلکہ قرآن کے ترجمہ تک سے ناآشنا عوام اور ان عوام کے جذبات کااستحصال کرنے والے متجددین۔ دیگر عوامل کے علاوہ   ----سب ہی شعوری یا غیر شعوری طور پر ہندوانہ رواجی قانون وراثت سے متاثر اور مانوس تھے (کہ یہ قانون یہاں قریباً سو سال تک رائج رہا)اور یہ نظریہ قائم مقامی کے لیے بھی بہت موزوں ہے۔ لہٰذا یہاں حکومت کی قانون سازی اس دائرے سے باہر نہ نکل سکی۔ چنانچہ یہاں کے متجددین نے (جو مصری متجددین کے مقابلے پر علم دین میں بھی فروتر ہیں)کچھ تو علمائے دین کے مقابلے پر مخالفانہ ضد کی وجہ سے اور کچھ قرآنی قانون وراثت سے بے خبری کی بناء پر   ----اس مسئلے کے ایسے حل (قانون)پر صاد کر دیا جو ہندوانہ رواجی قانون سے متاثر اورمانوس عوام کو پسند اور مطلوب تھا اور عوام کی اس ’’پسند‘‘اور طلب پر گواہ ہیں پنجاب مقننہ کی طبع کردہ مجموعہ ’’آراء‘‘ میں وہ متعدد عوامی آراء جن کی طرف ہم مقالہ میں کئی جگہ حوالے دے آئے ہیں۔

4      یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کے بارے میں حکومت مصر کا قانونی حل نسبتاً قرآن و سنت سے قریب تر اور اسلامی ہے۔ جب کہ حکومت پاکستان کا حل (قانون)قرآن سے بیگانہ‘ہندو رواجی قانون سے قریب تر اور محض ’’عوامی‘‘ ہے۔

حواشی اور حوالہ جات

(۱)      اس قسم کے مغالطہ کی نہایت عمدہ مثال عبدالعزیز الکنانی کا عباسی خلیفہ المامون کے دربار میں معتزلی وزیر کے ساتھ وہ مناظرہ ہے جس کا قصہ خود انہوں نے ایک رسالہ کی شکل میں لکھا ہے اس کا نہایت عمدہ اردو ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے ’’تاریخ عہد عباسیہ کا ایک ورق‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ یہ مضمون مولانا آزاد کے ایک مجموعہ مضامین بعنوان ’’صدائے رفعت‘‘ کے صفحہ ۱۴تا صفحہ ۸۷پر ہے۔ یہ کتاب ملک پبلشرز ۔ لائل پور (حال فیصل آباد)نے شائع کی تھی۔

(۲)مثلاً دیکھئے روزنامہ جنگ لاہور کی اشاعت ۲۸فروری‘۷ مارچ۱۹۸۶ء(جمعہ میگزین)میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا مضمون اور طلوعِ اسلام اپریل ۱۹۸۶ء میں اس پر غیظ و غضب کا اظہار اور اپنے پرانے خود ترک کردہ موقف کی تکرار۔

(۳)    اگرچہ بعد میں جب پنجاب مقننہ کی اس مسئلہ پر پبلک آراء (فروری ۱۹۵۴ء)شائع ہوئیں تو پتہ چلا کہ متعدد وکلاء اور ججوں نے بھی اس نظریہ کی نامعقولیت واضح کردی ہے۔ لیکن یہاں مقالہ نگار بطور اظہار ممنونیت اس بات کوریکارڈ پرلانا چاہتا ہے کہ تیاری برائے مقالہ کے ابتدائی دنوں میں جب میں نے جیرا جپوری صاحب کا مقالہ ’’محجوب الارث‘‘ پڑھا تو میں ان کے استدلال سے بڑا متاثر ہوا اور ان کے اس نئے نظریہ اقربیت اور یتیم بھتیجے کو چچا کا بھائی بنا کر وراثت دینے کو نہایت معقول حل سمجھنے لگا تھا۔ ۱۹۵۳ء کی تعطیلات گرما میں اپنے گاؤں (حبیب ضلع جھنگ)گیا تو وہاں مولانا محمد حسنؒ خطیب جامع مسجد جھنگ شہر سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کے لیے ملاقات کی اور ان کے سامنے جیراجپوری صاحب کے نظریہ اقربیت کی بات ہوئی تو مولانا نے فرمایا کہ ’’حافظ صاحب ذرا متعدد بھتیجوں کے ساتھ صورت حال پر غور کیجیے ‘‘مجھ پر اس نظریہ کی لغویت اسی وقت واضح ہوگئی۔ اس مسئلہ میں میرے پہلے رہنما مولانا محمد حسن صاحب مرحوم و مغفور ہی تھے۔

(۴)     دیکھئے 1975P.L.Dء پشاور 71نیز1978P.L.Dء لاہور 483۔

مراجع و مصادر

(۱)      قرآن حکیم

(۲)     احکام القرآن۔ لابی بکر محمد بن عبداللہ ابن العربی الا ندلسی م ۵۴۲ھـ مطبعۃ السعادۃ مصر ۱۳۳۱ھـ

(۳)    احکام القرآن۔ لابی بکراحمد بن علی الرازی الجصاص م ۳۷۰ھـ ۔ مطبعۃ اوقاف اسلامیہ قسطنطنیہ ۱۳۳۵ھـ (بعہد سلطان وحید خان و باہتمام نظارۃ الاوقاف)

(۴)     فتح القدیر۔ الجامع بین فنی الروایتہ والدرایتہ من علم التفسیر ---- للامام محمد بن علی الشوکانی م ۱۲۵۰ھـ ---- مطبعۃ مصطفٰی البابی (مصر)۱۳۴۹ھـ

(۵)     تفسیر المنار۔ للسید محمد رشید رضا۔ مطبعۃ المنار‘ مصر‘ الطبعۃ  الثانیۃ ۱۳۶۵ھـ

(۶)     تفسیر المراغی۔ لاحمد مصطفی المراغی۔ مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبی و اولادہ بمصر---- الطبعۃ الاولی ۱۳۶۵ھـ ۔ ۱۹۶۴ء

(۷)    تفسیر ابن کثیر---- حافظ ابن کثیر

(۸)     تفسیر احمدی از ملاجیون مطبوعہ مطبع حسنی (مقام و تاریخ طباعت ندارد)۔

(۹)     تفسیر ابوالفتوح رازی۔ از شیخ حسین بن علی الخزاعی المعروف بابی الفتوح رازی مطبوعہ چاپ خانہ شرکت تضامنی محمد حسن علمی و شرکاوہ۔ تہران (ایران)خرنادماہ ۱۳۲۰ھـ۔

(۱۰)    تفسیر بیان القرآن اردو۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ اشرف المطابع تھانہ بھون (انڈیا) سنہ ندارد۔

(۱۱)     تفسیر حقانی (فتح المنان) اردو تفسیر از مولانا عبدالحق دہلوی شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۳۶۴ھـ۔

(۱۲)    صحیح البخاری ۔ لابی عبد اللہ  محمد بن اسماعیل البخاری م ۲۵۶ھـ۔ مطبوعہ لیدن مطبعۃ بزیل ۱۹۰۸ء ۔

(۱۳)    صحیح مسلم۔ لابی الحسنین مسلم بن حجاج نیشاپوری م ۲۶۱ھـ۔ ناشر محمد صبیح واولادہ‘بمیدان الازھر بمصر ۱۳۳۴ھـ

(۱۴)    صحیح الترمذی۔ لابی عیسی محمد بن عیسی الترمذی م ۲۷۹ھـ المطبعۃ المصریۃ بمصر ۱۳۵۰ھـ موافق ۱۹۳۱ء ۔ الطبعۃ الاولی۔

(۱۵)    موطا۔ الامام مالک بن انسؓ م ۱۷۹ھـ۔ داراحیاء الکتب العربیہ۔ عیسی البابی الحلبی شرکاؤہ (مصر)۱۳۷۰ھـ ۱۹۵۱ء

(۱۶)    بلوغ المرام۔ للحافظ ابن حجر العسقلانی م ۸۵۲ھـ ۔ مطبع مصطفی محمد صاحب المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصر‘ سنۃ طباعت ندارد۔

(۱۷)    الجامع الصغیر للسیوطی۔ مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر --- سنۃ ندارد۔

(۱۸)    الفروع من الجامع الکافی۔ لملا محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی م ۳۲۹ھـ مطبعہ نو لکشور لکھنو ۱۸۸۶ء

(۱۹)     کتاب الام۔ الامام محمد بن ادریس الشافعیؒ المطبعۃ الکبری الامیریۃ۔ بولاق (مصر۱۳۲۵ھـ)

(۲۰)    المحلی۔ لابی محمد بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی م ۴۵۶ھـ مطبوعۃ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ قاھرۃ ۱۳۵۲ھـ۔

(۲۱)    بدایۃ المجتھد۔ لا بن رشد القرطبی م ۵۹۵ھـ مطبعۃ الاستقامۃ قاھرۃ ۱۳۵۷ھـ ۔۱۹۳۸ء

(۲۲)    فیض الباری۔ شرح بخاری للعلامہ محمد انور شاہ کشمیری م ۱۳۵۲ھـ۔ مطبعۃ دارالمامون مصر ۱۳۵۷ھـ ۔ ۱۹۳۸ء الطبعۃ الاولی۔

(۲۳)   عینی شرح بخاری ----

(۲۴)   مصادر الاحکام الشرعیہ۔ صالح بن غالب الیافعی سلطان حضر موت ---- مطبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر ۔ ۱۳۶۵ھـ ۔ ۱۹۵۰ء  الطبعۃ الاولٰی۔

(۲۵)    الاحکام فی اصول الاحکام۔ لا بن حزم الاندلسی م ۴۵۶ھـ ۔ مکتبہ الخانجی مصر ۱۳۴۵ھـ

(۲۶)    اصول التشریع الاسلامی۔ للا ستاذ علی حسب اللہ۔ مطبعۃ العلوم شارع الخلیج بمصر۔ الطبعۃ الاولی ۱۹۵۲ء

(۲۷)   تاریخ فقہ اسلامی۔ علامہ خضری کی تاریخ التشریح الا سلامی کا اردو ترجمہ از عبدالسلام ندوی۔ شائع کردہ دارالمصنفین اعظم گڑھ (انڈیا)سنہ ندارد۔

(۲۸)   مجموعۃ فتاویٰ ابن تیمیۃؒ۔ لابن تیمیۃ الحرانی م ۶۲۱ھـ  مطبع کردستان العلمیہ قاھرہ ‘مصر ۱۳۲۹ھـ ۔

(۲۹)    الدر المختار۔ لعلاء الدین علی الحصکفی۔ مطبع مجتبائی دہلی ۱۹۱۶ء

(۳۰) المقارنات التشریعیۃ بین القوانین الوضعیۃ المدنیۃ والتشریع الاسلامی ---- للسید عبداللہ علی حسین ---- داراحیاء الکتب العربیتہ۔ عیسی البابی الحلبی مصر الطبعۃ الاولی ۱۳۶۸ھـ ۱۹۴۹ء۔

(۳۱)    المواریث الاسلامیہ۔ فی المذاھب الاربعتہ۔ لاحمد کامل الخضری شیخ معھد دمیاط الطبعۃ الثانیہ۔ مطبعۃ التوکل بمصر ۱۳۶۹ھـ ۔ ۱۹۵۰ء

(۳۲)   احکام المواریث۔ لمحمد محی الدین عبدالحمید۔ مطبع عیسی البابی مصر ۱۹۴۷ء

(۳۳)   سراجی۔ مع ضیاء السراج (حاشیہ)۔ مطبع نظامی کانپور ۱۲۹۵ھـ  مصنف سراج الدین محمد بن محمد سجاوندی م ۶۵۰ھـ ہیں۔

(۳۴)   شریفیہ۔ شرح سراجیہ۔ ازسید شریف علی۔ مطبع گلشن احمدی لکھنؤ ۱۳۸۹ھـ ۔ ۱۸۷۲ء۔

(۳۵)   کتاب الفرائض۔ من شرائع الاسلام للشیخ نجم الدین ابی القاسم المحلی۔ مطبوعہ و کٹوریہ پریس لاہور ۱۲۸۸ھـ ۱۸۷۱ء ۔

(۳۶)   الوراثۃ فی الاسلام۔ للحافظ اسلم الجیراجی۔ مطبوعہ علی گڑھـ ۱۹۲۲ء

(۳۷)   حل المشکلات فی الفرائض۔ شجاع بن نور اللہ انقروی مدرس مدرسہ سرای عتیق ادرنہ (ترکی)مطبوعہ بولاق ۱۲۸۵ھـ

(۳۸)   فتاویٰ عالمگیری۔ اردو ترجمہ از سید امیر علی مرحوم۔ مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ ۱۹۴۸ء۔

(۳۹)   حجتہ اللّٰہ البالغہ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ دہلوی م ۱۱۷۶ھـ کی کتاب کا اردو ترجمہ از مولانا عبدالرحیم صاحب پشاوری۔ شائع کردہ قومی کتب خانہ لاہور سنہ طباعت ندارد۔

(۴۰)   جامع الاحکام فی فقہ الا سلام۔ سید امیر علی مرحوم کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ از سید ابوالحسن صاحب۔ مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ (سن طباعت ندارد)۔

(۴۱) مختار المسائل۔ اردو ترجمہ از سید سرور حسین صاحب مطبوعہ نامی پریس لکھنو  ۱۹۳۱ء ۔

(۴۲)   فتاویٰ المیراث۔ معروف بہ شرح نظم فرائض۔ اصل از مولوی جعفر علی و شرح از مولوی محمد یوسف علی۔ مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ ۱۲۹۰ھـ ۔  ۱۸۷۳ء

(۴۳)   الوراثت فی القرآن۔ خواجہ احمد الدین امرتسری۔ شائع کردہ دفتر امت مسلمہ امرتسر ۱۹۴۱ء

(۴۴)   تین اہم مسائل۔ شائع کردہ ادارہ طلوع اسلام کراچی۔ سنہ ندارد

(۴۵)   سیرت عائشہ سید سلیمان ندوی ۔دارالمصنفین اعظم گڑھ سنہ ندارد

(۴۶)   الفاروق۔ مولانا شبلی نعمانی۔ مطبوعہ مطبعہ معارف اعظم گڑھ۔ سنہ ندارد

(۴۷)   اسلام کا اقتصادی نظام حفظ الرحمن سیوہاروی۔ دارالمصنفین دہلی سنہ ندارد

(۴۸)   پوتے کی میراث۔ مفتی محمد شفیع صاحب کا مختصر سا پمفلٹ (تحریر)شائع کردہ جامعہ اشرفیہ ۔ نیلا گنبد لاہور (۱۹۵۴ء)

(۴۹)    یتیم پوتے کا حق وراثت۔ سید غلام احمد بی اے پلیڈر منٹگمری کا مختصر سا پمفلٹ جسے خود مصنف نے شائع کیا ہے۔ ۱۹۵۳ء

(۵۰)    مقننہ پنجاب Legislative Assemblyکی اس مسئلہ پر طبع کردہ پبلک آراء یعنی

Opinions on the Punjab Muslim Personal Law (Shariat) Application (Amendment) bill (8th of 1953) and its supplement.

English Books

51.    Encyclopedea of Religion and Ethics (Edited by James Hastings) Vol: 7 Article on "Inheritance"

52.     Principles of Mohammaden Law by F.D. Mulla 13th Ed (1950) Calcatta.

53.     Mohammaden Law by F.B Tayabji. 3rd Ed (1940) Bombay.

54.     Muslim Institutions by Maurice Gaudferoy 1st Ed (1950) George Allen and Unwin, London.

55.     Reconstruction of Religious Thought in Islam by Allama Iqbal (Lahore Edition).

56.     Hand Book of Mohammaden Law by Syed Amir Ali 3rd Ed. (1911), Calcatta.

        اس کے علاوہ

        رسالہ طلوعِ اسلام کراچی کے۱۹۵۱ء‘ ۱۹۵۲ء‘ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۵۴ء کے متعدد پرچوں  --رسالہ ترجمان القرآن لاہور کے۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۴ء کے مختلف شماروں اور اخبار اہل حدیث امرتسر کے۱۹۱۷ء اور ۱۹۱۸ء کے پرچوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔